معیشت کا ماضی، حال اور مستقبل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جنوری 2023ء میں عوام پریشان تھے۔ ملکی معیشت کے حالات کے متعلق ہر شخص منفی باتیں کررہا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی تھیں۔ پیٹرول کی قیمت 331روپے 80پیسے تک جا پہنچی۔ لوگ پریشان تھے ، شرحِ سود میں اضافہ ہورہا تھا۔

2022ء سے شرحِ سود 16فیصد سے تیزی کے ساتھ بڑھ رہی تھی۔ ڈالر آسما ن سے باتیں کر رہا تھا۔ ہر پاکستانی پریشان تھا کہ ڈالر کی قیمت  بڑھنے کا یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا؟ ڈالر کی اونچی اڑان 307روپے تک پہنچی تو بعض عاقبت نا اندیشوں  نے پیشگوئی شروع کردی کہ ڈالر کی قیمت 350 یا 400روپے تک جا پہنچے گی۔

پاکستان کے زرِ مبادلہ ذخائر کم ہورہے تھے، یہاں تک کہ اسٹیٹ بینک میں  ہمارے پاس 3ارب ڈالر رہ گئے اور لوگ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی بات کرنے لگے۔ اس دوران پاک افغان سرحد پر اسمگلنگ اپنے عروج پر تھی، جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر اشیائے خوردونوش مہنگی ہوتی چلی گئیں اور پاکستان کی درآمدات کا حجم بھی آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔

اپریل 2023 میں آئی ایم ایف نے رپورٹ جاری کی کہ پاکستان کی معاشی شرحِ نمو میں صرف 0.05 فیصد کا اضافہ ہوسکے گا جس پر لوگ مزید پریشان ہوئے اور حکومت کو بھی تشویش لاحق ہوئی۔ بیرونِ ملک  سے سرمایہ کاری کرنے والے لوگ پاکستان سے جانے کی بات کرنے لگے۔ پاکستان میں آئی ایم ایف نے شرائط پر شرائط عائد کرنا شروع کردیں۔ کبھی شرحِ سود بڑھانے، کبھی پیٹرول ، کبھی بجلی، کبھی گیس   مہنگی کرنے کی اور  ساتھ ہی ساتھ ہر انسان پر ٹیکس کا بہت بڑا بوجھ ڈالنے  کا کام پاکستان کے اداروں اور حکومتوں کے سپرد کردیا گیا۔

بظاہر محسوس ایسا ہوتا تھا کہ پاکستان اپنا  ٹیکس ہدف حاصل نہیں کرسکے گا، ملک  کے مسائل بڑھ رہے تھے  اور ہر شخص معیشت کے متعلق منفی سوچ رکھنے لگا جس کی وجہ سوشل میڈیا اور سٹیلائٹ چینلز پر منفی خبریں تھیں جو مسلسل جاری رہیں۔ ملک کے حالات اور منفی خبروں کے باعث اسٹاک مارکیٹ دباؤ کا شکاررہی اور ایسا لگتا تھا کہ معیشت اور اسٹاک مارکیٹ بے انتہا دباؤ کا شکار رہے گی۔

سوال یہ ہے کہ پھراکتوبر میں ایسا کیا ہوا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے ایک رپورٹ جاری کی اور بتایا کہ پاکستان کی معیشت دسمبر تک 2 اعشاریہ 5 فیصد ترقی کرسکتی ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ آئندہ برس 2024 میں معیشت کی شرح دوگنا ہو کر 5فیصد تک جا پہنچے گی۔

آخر ان سب معاملات کی وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ ہے کہ حکومت اور مسلح افواج نے کاروباری افراد کے ساتھ مل کرمعاشی  معاملات بہتر کرنے کا فیصلہ کیا اور حکومت نے سب سے پہلے ان شعبہ جات پر کام کیا جن کی وجہ سے غیر قانونی طور پر پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچایا جارہاتھا۔

پتہ چلا کہ سب سے اہم جگہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد تھی، جس کی وجہ سے کئی سالوں سے پاکستان جو بھی چیزیں درآمد کرتا تھا، وہ افغانستان چلی جاتی تھیں، پاکستان میں چیزوں کی قلت ہوگئی، قیمتیں بڑھنے لگیں،زرِ مبادلہ کم ہوتا گیا اوران تمام عوامل کے پاکستانی قوم پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ ناقابلِ بیان حد تک منفی تھے۔

حکومت نے جیسے ہی اسمگلنگ کو روکا، اس کا اثر فور ی طور پر امپورٹ بل پر نظر آنے لگا۔ دوسری جانب ڈالر کی اڑان جو 307روپے تک جا پہنچی تھی، اسے روکنے کیلئے  مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت  میں اضافہ کرنے والے لوگوں کے خلاف  کریک ڈاؤن کیا گیا، جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت 307روپے سے گر کر 278روپے تک آگئی۔

یہی نہیں، بلکہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کیلئے  پیٹرول کی قیمت کو 331روپے سے کم کرکے267روپے فی لیٹرپر لاکھڑا کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ٹیکس ہدف سے کہیں زیادہ ٹیکس وصولی ہوچکی ہے، مگر پاکستانی عوام آج بھی آئی ایم ایف سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ ان کی شرائط کے مطابق بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوا ، گیس کی قیمت بڑھی مگر پاکستان کے عوام اور پاکستان کی معیشت کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا، تو کیوں؟

پاکستانی عوام  پہلے 9 فیصد پر کاروبار کرتے تھے، آج شرحِ سود 22 فیصد ہوچکی  ہے اور مہنگائی کی شرح 40 فیصد سے بھی اوپر جاچکی ہے۔ آنے والے دنوں میں الیکشن ہونے والے ہیں ۔ ہر پارٹی نے اپنے منشور میں کہا ہے کہ بجلی کی قیمت کو کم کریں گے اور کچھ پارٹیاں کہہ رہی ہیں کہ 300 یونٹس مفت دئیے جائیں گےبلکہ پورے ملک میں  میٹھے پانی کی فراہمی بھی  نظر آئے گی۔

سننے میں یہ بات بہت اچھی لگتی ہے اور پچھلے کئی عشروں سے ہم یہ باتیں سنتے چلے آرہے ہیں، مگر ہم نے سیاست دانوں کو حکومت میں آنے کے بعد اپنے ہی منشور کے برعکس کام کرتے ہوئے دیکھا ہے اور جواز یہی پیش کیا گیا کہ ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے اور ماضی کی  حکومتوں کی وجہ سے ہم نہ بجلی کی قیمت کم کرسکتے ہیں، نہ پیٹرول کی، نہ ڈالر کی قیمت گر ا سکتے  ہیں۔

ہر چیز کیلئے یا تو گزشتہ حکومت کو الزام دیا یا اپنی مجبوری بیان کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا آنے والے وقتوں میں ہمارا ووٹ لینے کے بعد یہ سیاسی لوگ پھر وہی پرانے جواز پیش کریں گے اور اپنے منشور پر کام نہیں کریں گے؟ یا پھر موجودہ عبوری حکومت کی طرح کام کریں گے جس نے چند ماہ میں پیٹرول کی قیمت  میں 60روپے سے زیادہ کمی کی اور  ڈالر کی قیمت کو 267روپے فی لیٹر تک لے آئی۔

سخت حالات کے باوجود پاکستان کی برآمدات  میں گزشتہ برس کی شرح 38 فیصد سے اضافہ کیا ۔ دنیا بھر سے اپنے تعلقات کو بہتر کیا، جس کی وجہ سے یو اے ای سے 20 ارب ڈالر کا ، 25ارب ڈالر کا سعودی عرب سے اور 15ارب کا کویت سے ہوا۔

یہی نہیں، بلکہ دنیا بھر کے ممالک میں کاروباری تعلقات میں اضافہ ہوا اور اگر ہم صرف چین کی ہی بات کر لیں تو چین سے اپنے تعلقات کو بہتر بناتے ہوئے گزشتہ سال کے مقابلے میں ہم نے چین سے ہونے والی اپنی دو ملکی تجارت  70 فیصد زیادہ کی۔

موجودہ حکومت کے دوران جتنے بھی معاہدے ہوئے، وہ زرعی، ریفائنری ، مائننگ اور آئی ٹی کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ جات میں سرمایہ کاری سے متعلق ہیں۔ کیا  آئندہ آنے والی حکومت ان معاہدوں کو اور موجودہ حکومت کی محنت کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے گی یا نہیں؟

اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک معاشی طور پر ترقی کرے، مہنگائی کم ہو اور جس طرح سے ہماری ہی حکومت نے برے سے برے حالات کے باوجود ہمیں چند ماہ میں جو ترقی دکھائی ہے، اس ترقی کا سلسلہ چلتا رہے تو پھرآئندہ عام انتخابات 2024 میں  اپنے ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں  اور آنے والے سیاسی امیدوار وں کو ان کی گزشتہ کارکردگی کی بنیاد پرہی ووٹ دیں۔

اگر وہ کسی بھی قسم کے بہانے بنائیں اور اپنی ناکامیوں کا جواز پیش کریں تو ان کی نہ سنیں اور ان سے کہیں کہ ہمیں وجوہات نہ بتائی جائیں۔ اپنی کارکردگی کے نتائج بتائیں، کیونکہ اس ملک کو ہمیشہ سے سیاست دانوں نے آسرے، لارے  اور بہانے  کرکے ترقی و خوشحالی سے دور رکھا اور عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے دیا۔

آج بھی ہمارے ہاں سیاسی لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کیاجاتا ہے، جو بخوبی اپنے ڈائیلاگ اور لوگوں کے جذبات کو استعمال کرکے اپنے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے کام کرتے ہیں۔ آئیے ایک ایسی حکومت کی تلاش کریں جو اپنے ذاتی مفادات کو نہ دیکھے اور ملک و قوم کے مفادات کے تحفظ کیلئے حقیقی کام کرے اور وہ طریقے بتائے جس سے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ اور گھریلو اخراجات میں کمی ہوسکے۔  

Related Posts