اسرائیل کی بڑی ہزیمت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اگر آپ کسی مغرب کے نوجوان کیا، معمر شخص سے بھی کوئی ایسا سوال پوچھ لیں جس کا جواب اس کے پاس نہ ہو تو وہ بلا تردد جواب دے گا: “میں نہیں جانتا۔” یہ وہ جواب ہے جس کے متعلق تیرہ سو برس قبل امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ یہ آدھا علم ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ نہ جاننے کا اعتراف علم، شعور اور حوصلے کے بغیر ممکن نہیں۔

اس اعتراف کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی مخصوص موضوع کا علم نہ رکھنے والا یہ شخص یہ علم ضرور رکھتا ہے کہ علم نہ رکھنے کے باوجود کسی موضوع پر منہ کھولنا گمراہ کن ہوتا ہے، لھذا ایسی صورتحال میں نہ جاننے کا اعتراف ہی درست راہ ہے۔

اسی طرح مغربی لوگوں کی ایک بیحد شاندار خوبی یہ ہے کہ وہ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ جو ٹیکسٹ بک علم وہ یونیورسٹی سے حاصل کر رہے ہیں وہ یا تو انہیں اسی شعبہ علم کا محقق بنائے گا یا کسی کارخانے یا کمپنی کا ملازم۔ چنانچہ وہ غیر نصابی مطالعے کی عادت ڈال کر سماجی علوم کا شعور بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ یوں وہ جب کسی ایشو پر بات کرتے ہیں تو آپ ان کی رائے سے متفق نہ بھی ہوں تو یہ بات ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ یہ شخص جس موضوع پر بات کر رہا تھا، اس کا اسے علم اور شعور حاصل ہے۔ یہ خالی ڈھول نہیں ہے۔

اگر غیر نصابی مطالعہ نہ ہو تو جدید درسی علم جہالت سے بھی زیادہ مہلک ہے، کیونکہ اسے حاصل کرنے والے نے بالفرض ایم بی اے کر رکھا ہو تو وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ چونکہ اس نے ایم بی اے کر رکھا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ “پڑھا لکھا اور باشعور” شخص ہے۔ اس کے بعد یہ رائے بھی وہ خود ہی قائم کر لیتا ہے کہ چونکہ میں پڑھا لکھا باشعور شخص ہوں لھذا مجھے دنیا کے ہر موضوع پر منہ کھولنے کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ ہوتا پھر یہ ہے کہ اپنے ایم بی اے والے سبجیکٹ کے علاوہ یہ جس موضوع پر بھی منہ کھولتا ہے تو اس کے منہ اور گٹر میں کوئی خاص فرق باقی نہیں رہتا۔

اپنے اردگرد یہ تماشے ہم روز دیکھتے ہیں۔ چلن تو یہ ہر موضوع پر ہے لیکن اگر آپ نے فوری تجربہ کرنا ہو تو مذہب یا کرکٹ کے حوالے سے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر کوئی بے معنی سی بات لکھ کر دیکھ لیجئے۔ آپ کو اپنی ہی فرینڈ لسٹ میں وہ بھی مل جائیں گے جو خود کو امام ابو حنیفہ کا بھی ابوجی سمجھتے ہیں اور وہ بھی جن کا خیال ہے کہ وہ کرکٹ سر ڈان بریڈمین سےبھی زیادہ سمجھتے ہیں۔ ان میں سے پہلے کی اوقات یہ ہوگی کہ وہ درس نظامی کے ابتدائی درجات میں ہی مدرسے اور تعلیم دونوں سے فرار حاصل کر چکا ہوگا، جبکہ دوسرے کی کل مہارت گلی میں ٹیپ بال کرکٹ کی ہوگی۔

یہ لمبی تمہید ہمیں یوں باندھنی پڑی کہ غزہ کی عارضی جنگ بندی کے دوران سوشل میڈیا پر کچھ پڑھے لکھے جاہل یہ فرماتے دیکھے کہ فلسطینیوں نے اپنا بڑا نقصان کرا لیا۔ ان کے چودہ ہزار افراد مارے گئے اور غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ اس ایم بی اے زدہ مخلوق کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ جانتی ہی نہیں کہ “آزادی” اور اس کی قیمت کیا ہوتی ہے؟ اور یہ نہیں جانتے کہ جب دوسری جنگ عظیم کے دوران اتحادی کمانڈر آئزن ہاور نے فرانس کو جرمن قبضے سے چھڑانے کا پلان بنایا تو وہ فرانسیسی لیڈر چارلس ڈیگال سے ملا اور کہا

“ہم فرانس کو آزاد کرنے کا مشن شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس میں فرانسیسی شہری بھی بڑی تعداد میں مریں گے۔”

ڈیگال نے پوچھا: “اندازے کے مطابق کتنے فرانسیسی مریں گے؟”

آئزن ہاور نے جواب دیا: “لاکھ سے اوپر ہی ہوں گے۔”

ڈیگال نے کہا: “یہ آزادی کی بہت کم قیمت ہے۔ آپ کیجئے حملہ۔”

ہمارا ایم بی اے زدہ جاہل یہ بھی نہیں جانتا کہ غلامی کی زندگی اگر قابل قبول شے ہوتی تو روس دوسری جنگ عظیم کے دوران دو کروڑ ستر لاکھ افراد کی قربانی کیوں دیتا؟ اور یہ ایم بی اے زدہ مسخرے یہ بھی نہیں جانتے کہ ہر حملہ آور کا ایک اسٹریٹجک ہدف ہوتا ہے۔ جنگوں میں دیکھنا بس یہ ہوتا ہے کہ وہ ہدف حاصل ہوا یا نہیں؟ اگر حاصل نہ بھی ہوسکا تو کیا اس کی جانب کوئی بڑی پیش رفت ہوئی کہ نہیں؟ اس اصول کے مطابق اب سوال یہ بنتا ہے کہ حماس کے 7 اکتوبر والے حملے کا ہدف کیا تھا؟ آئیے اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔

حماس کے 7 اکتوبر کے حملے سے ڈیڑھ دو ہفتے قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے انکشاف کیا کہ وہ ابراھامک ایکارڈ کے تحت اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس پر اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو اپنی مسرت پر قابو پائے بغیر سامنے آگئے اور تصدیق کردی۔ اب ابراھامک ایکارڈ کا کل مقصد یہ ہے کہ عرب ممالک کے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات قائم کروا کر فلسطینیوں کو تنہا کردیا جائے تاکہ اسرائیل انہیں بہ سہولت کچل سکے۔

سوال یہ ہے کہ ابھی معاہدہ فائنل نہ ہوا تھا۔ مذاکرات تھے بھی خفیہ۔ تو پھر محمد بن سلمان نے اسے طشت از بام کیوں کیا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ سعودی ولی عہد نے درحقیقت حماس کو ہی سگنل دیا تھا اور بن یامین نیتن یاہو اس کے جھانسے میں آگئے۔ حماس کا اصل ہدف “آزاد و مختار فلسطینی ریاست” ہے اور وہ جانتی ہے کہ ابراھامک ایکارڈ اسی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے والا پروجیکٹ ہے۔ چنانچہ اس نے 7 اکتوبر کے حملے سے اپنے اسی ہدف کو حاصل کرنے کی ایک بے مثال کوشش کی ہے۔

یہ کوشش بے مثال تین حوالوں سے ہے۔ ایک یہ کہ اس حملے کے بعد کھل کر اسرائیلی حمایت میں آنے والے جو بائیڈن کو بھی یہ کہنا پڑا کہ موجودہ صورتحال نارمل ہوتے ہی ان کی پہلی ترجیح فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے سنجیدہ کوشش ہوگی۔ صرف بائیڈن ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی حکومتوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کو وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت قرار دیا ہے۔ صرف ضرورت بھی قرار نہیں دیا گیا بلکہ برکس سربراہان نے اس حوالے سے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرکے فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے کسی مجوزہ عالمی کانفرنس کے انعقاد پر بھی غور کر لیا ہے اور یہ کانفرنس آنے والے دنوں میں متوقع ہے۔

برکس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ان ممالک کے سربراہان نے بھی شرکت کی جن کی برکس ممبرشپ کی منظوری دی جا چکی مگر یہ باقاعدہ ممبر آنے والے جنوری میں بنیں گے۔ یوں اس اجلاس میں سعودی عرب، یو اے ای، مصراور جبوتی بھی شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کے ساتھ ملا کر اگر بیجنگ جانے والے عرب ڈیلی گیشن کا معاملہ بھی دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو نہیں رہا بلکہ بڑی حد تک ہوچکا۔ اب دنیا اپنے مسائل کے حل کے لئے واشنگٹن کے بجائے بیجنگ اور ماسکو کا رخ کر رہی ہے۔ عالمی اسٹیج پر امریکی گرفت کے کمزور ہونے کا ہی ایک بڑا اظہار ایک ہفتہ قبل اس وقت ہوا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے عارضی جنگ بندی کی ایک ایسی قرارداد منظور کی جس کی ووٹنگ کے دوران امریکہ مکمل طور پر تنہا نظر آیا۔

یہ صورتحال کیا بتاتی ہے؟ یہی کہ حماس 7 اکتوبر والے حملے کے نتیجے میں اپنے اصل ہدف کی طرف بڑی عالمی پیش رفت کروانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اب دنیا سنجیدگی کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب پیش قدمی کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اور ہر طرف یہ بات کہی جا رہی ہے کہ مسئلے کا واحد اور پائیدار حل آزاد و مختار فلسطینی ریاست ہی ہے۔ مگر حماس کا کل ہدف یہی نہ تھا۔ اس کے دو ضمنی اہداف بھی تھے۔

پہلا ضمنی ہدف یہ کہ نیتن یاہو خود کو “مسٹر سیکیورٹی” کا لقب دیتے ہوئے کئی بار یہ کہہ چکے تھے کہ انہوں نے اسرائیل کو محفوظ کرلیا ہے۔ اب اسرائیلیوں کو کوئی خطرہ نہیں۔ 7 اکتوبر والے حملے کے ذریعے حماس نے نیتن یاہو ہی نہیں ہر صیہونی کا یہ غرور خاک میں ملا دیا ہے۔ اور باور کرا دیا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اسرائیل اب زیادہ غیر محفوظ ہے۔ حماس کی فورس اس کے کسی بھی کونے تک پہنچ سکتی ہے۔ اور اس کے میزائل اس کے ہر انچ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ 7 اکتوبر کو حماس نے سوئے ہوئے اسرائیلی فوجی نہ مارے تھے بلکہ اس نے باقاعدہ جھڑپ میں اسرائیل کے گولان بریگیڈ کو مٹی چٹوائی تھی۔ چنانچہ اسرائیل میں خوف کا یہ عالم ہے کہ بڑی تعداد میں اس کے شہریوں نے 7 اکتوبر کے بعد یہ کہہ کر ملک چھوڑ دیا ہے کہ وہ لوٹ کر کبھی نہ آئیں گے۔

حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کا دوسرا ضمنی ہدف یہ تھا کہ یرغمالی حاصل کرکے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کو رہا کروایا جائے۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ فلسطینیوں کی رہائی کی اس کے سوا کوئی بھی آپشن سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی۔ یرغمالیوں کے حصول والے مقصد میں وہ اس حد تک کامیاب رہے کہ پچاس اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے اپنے 150 قیدیوں کی رہائی کی ڈیل کروا لی ہے جس پر تادم تحریر عمل جاری ہے۔ اگر کسی ایم بی اے زدہ کو ایک کے بدلے تین کا فرق سمجھ نہیں آتا تو یقین جانئے ملک میں دماغی امراض کے بہت نامی گرامی معالج موجود ہیں۔ مگر حماس نے تو ڈیل بھی ایک کے بدلے تین کی نہیں کی بلکہ غزہ کے لئے یومیہ دوسو ٹرکوں کی امداد بھی حاصل کی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اسرائیل تو غزہ کو نیست و نابود کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔ اس کا اسٹریٹجک ہدف تو یہ تھا کہ حماس کو ختم کرنا ہے۔ پھر اس نے یہ عارضی جنگ بندی کیوں قبول کی؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا عارضی جنگ بندی کا مطالبہ حماس کا تھا؟ یہ حماس نہیں عالمی برادری کا مطالبہ تھا۔ اور اس کے لئے دباؤ حماس نہیں بلکہ اسرائیل پر تھا۔ اس نے یہ دباؤ کیوں قبول کیا؟ عسکری شعور رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ دباؤ تب ہی قبول کیا جاتا ہے جب جارح کے پاس کامیابی کا کوئی ایک بھی ثبوت نہ ہو اور وہ یہ کہنے کی پوزیشن میں بالکل نہ ہو کہ بھئی میں کامیابی کے قریب ہوں اور آپ جنگ بندی کی بات کر رہے ہیں؟ کیا اسرائیل بتا سکا کہ غزہ پر حملے میں اس نے کس کس اہم حماس کمانڈر کو مارا یا گرفتار کیا؟ اس نے صرف بے گناہ شہری ہی مارے ہیں۔ اپنے اسٹریٹجک ہدف سے وہ آج بھی اتنا ہی دور ہے جتنا 8 اکتوبر کو تھا۔

یہی وجہ ہے کہ خود امریکی دانشور برملا کہہ رہے ہیں کہ یہ جنگ اسرائیل ہار چکا۔ حماس نے اپنے تینوں اہداف کی جانب بڑی پیش رفت ہی نہیں کی بلکہ سمجھئے کہ حاصل بھی کر لئے جبکہ اسرائیل کو الٹا یہ نقصان ہوگیا ہے کہ 7 اکتوبر کو دنیا میں حماس زیر بحث تھی اور اس کے اقدام کی ہر طرف مذمت ہو رہی تھی۔ جبکہ آج دنیا میں صرف اسرائیلی حملہ زیر بحث ہے اور ہر طرف اسرائیل کو ہی مجرم کی طرح ٹریٹ کیا جا رہا ہے۔ آج دنیا میں اس موضوع پر بات نہیں ہو رہی کہ حماس نے کیا کیا؟ بلکہ اسرائیل کے کرتوت زیر بحث ہیں۔ فلسطینیوں کے حق میں دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکلے جبکہ اسرائیل کی زنبیل میں ایک چاچا بائیڈن ہی ہے اور وہ بھی نیتن یاہو کو اقتدار سے نکلوانے پر تلا بیٹھا!

Related Posts