اسرائیل فلسطین لڑائی۔۔جیوپولیٹکس اورپاکستان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسرائیل فلسطین تنازع دنیا کے طویل ترین تنازعات میں سے ایک ہے، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کئی جنگیں اور جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں تاہم اقوام متحدہ اس دیرینہ مسئلے پرکشمیر کی طرح اپنی ہی قراردادوں پر عملدرآمدکرانے میں ناکام رہی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی ناکامی کی وجہ سے ایک بار پھر دنیا میں کشت و خون کے بادل منڈلارہے ہیں۔ آگ اور خون کی اس ہولی میں دونوں فریقین بھاری جانی و مالی نقصان اٹھاچکے ہیں۔

حماس اور اسرائیل کے مابین حالیہ کشیدگی میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا دو حصوں میں تقسیم  ہوچکی ہے، امریکا سمیت نیٹو کے تقریباً تمام ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، سیکورٹی کونسل کے بند کمرہ اجلاس میں روس اور چین کے علاوہ باقی تمام قوتیں اب تک اسرائیل کی صف میں کھڑی ہیں۔

جہاں تک مسلم امہ کا تعلق ہے تو زبانی جمع خرچ کے علاوہ عملی طور پر کوئی بھی اقدام اب تک ندارد ہے۔ ایرانی صدر نے حماس کے رہنمااسماعیل ہانیہ سے با ت کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کا اعلان کردیا ہے۔ کشیدہ صورتحال میں خلیجی ممالک پر ان کے اپنے ہی عوام کا دباؤ ایک قدرتی امر سمجھا جاسکتا ہے۔

اسرائیل فلسطین لڑائی کے اثرات کو محسوس کرنے کیلئے یوکرین روس جنگ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یوکرین پرحملے کے بعد تیل، گیس اور خوراک کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا کیونکہ جب اشیاء کی سپلائی متاثر ہوتی ہے تو قیمتوں میں اتار چڑھاؤ بھی معمول کی بات بن جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں پسماندہ یا ترقی پذیر ممالک کو اس کا خمیازہ زیادہ بھگتنا پڑتا ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایران کے خلاف صف بندیاں ہورہی ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اسرائیل پر حملوں میں امریکی شہری بھی متاثر ہوئے ہیں جس کے بعد امریکا کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ وہ بھی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کے قریب سمندر میں موجود بحری بیڑہ اسرائیل کے قریب پہنچ رہا ہے جس کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہوسکتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ایران گزشتہ کئی برسوں سے جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے اور اس کی بری، بحری اور فضائی افواج کسی بھی قسم کے حالات سے نبردآزما ہونے کیلئے تیار ہیں لیکن ایران کی اسرائیل جنگ میں شمولیت کی وجہ سے جو صف بندی ہورہی ہے اس میں اسٹرنگ آف پرلز، اسٹرنگ آف الائنس کی صف بندی اور چائنہ کنٹینمٹ کے تناظر میں اس کشیدگی کے اثرات بہت دور تک دیکھے جائیں گے۔

اسرائیل فلسطین کشیدگی میں بہت زیادہ خونریزی کا احتمال ہے کیونکہ اسرائیل کے پاس بہت خوفناک ہتھیار موجود ہیں اور مزید کمک بھی پہنچ رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس بار اسرائیل بدلہ لینے کیلئے فلسطین کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کا مذموم ارادہ رکھتا ہے۔

اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر نے اس جنگ کو نائن الیون قرار دیا ہے جس سے اسرائیل کے ارادوں کو بھانپنا مشکل نہیں۔ آج امریکا کا بحری بیڑہ اسرائیل ک حدود میں پہنچ جائے گا جس کے بعد ممکن ہے کہ امریکا اسرائیل کو کمک پہنچائے اورکسی حد تک بالواسطہ جنگ میں شامل بھی ہوجائے، یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے ایران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ دیگر ممالک اس جنگ میں کسی صورت معاونت نہ کریں ورنہ ان کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

اسرائیل فلسطین کشیدگی کے بعد مختلف ممالک میں احتجاج کی لہر بھی دیکھنے میں آرہی ہے تاہم جی سی سی ممالک کی طرف سے واضح مذمت یا مزاحمت کے آثار دکھائی نہیں دیئے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید جی سی سی ممالک اب بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے استوار ہوتے تعلقات کو بچانے اور پروان چڑھانے کی طرف مائل ہیں۔

خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی میں امریکا اور اسرائیل کا ایران کی طرف رخ کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور کشیدگی کے بادل چین پر بھی منڈلارہے ہیں ۔ چین اس صورتحال میں کسی صورت خود کو الگ تھلگ نہیں رکھ سکتا کیونکہ امریکا کی خواہش ہی چین کا اثر و رسوخ کم کرنا ہے اور اس کشیدگی کی آڑ میں امریکا چین کی سفارتی ترقی کودباؤ میں لانے کا موقع نہیں گنواسکتا۔

چین گوکہ معیشت کی بڑھوتری کی کاوشوں میں مصروف رہا اور چین ہمیشہ کشیدگی سے گریز کی پالیسی پرعمل کرتا ہے تو معاملات مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔ایران کی رسد گاہیں بند ہونے سے پاکستان پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے اور اپنی شہ رگ تک بات پہنچنے پر چین کو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی مداخلت کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے جس سے معاملہ دبے گا نہیں بلکہ مزید طول پکڑے گا۔

مسلم امہ کا کردار اس وقت انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے، او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلاکر معاملے کو فوری سنبھالنے کیلئے اقدامات ناگزیر ہیں کیونکہ اگر یہ معاملہ زیادہ پھیلتا ہے تو اس سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔

پاکستان کا کشمیریوں اور فلسطینیوں کی جدوجہد کے حوالے سے ہمیشہ ایک واضح مؤقف رہا ہے تاہم اسرائیل فلسطین کشیدگی میں براہ راست مداخلت کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ یوکرین جنگ کے بعد ہم تیل، گندم اور دیگر اشیاء کی امپورٹ میں مشکلات سے دوچار ہوئے تاہم اب اگر اسرائیل فلسطین جنگ میں کوئی واضح مؤقف اختیار کرتے ہیں تو شاید ہمیں بھی اس کے اثرات سے دوچار ہونا پڑے گا۔

Related Posts