معاشرہ، برائی اور اسلام

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کسی بھی ملک میں زیادہ تر ناانصافی اِس لیے وقوع پذیر ہوتی ہے کیونکہ اسے معمول کا حصہ سمجھ لیا گیا ہے۔ سوچ یہ ہے کہ معاشرے میں ہر شخص ایسا ہی کر رہا ہے، اِس لیے اب یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں رہی۔ مثال کے طور پر کچھ مقامات پر جب تک رشوت نہ دی جائے تو کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔ تاہم خاتم النبیین ﷺ نے رشوت دینے اور لینے والے دونوں پر لعنت کی اور دونوں کوہی جہنمی قرار دیا۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ مت کہو کہ اگر لوگ اچھا کریں گے تو ہم بھی کریں گے اور اگر وہ غلط کریں گے تو ہم بھی غلط کریں گے۔ (اس کی بجائے اپنی واضح رائے قائم کرو اور) اگر لوگ اچھا کریں، تم بھی اچھا کرو اور اگر وہ برا کریں تو تم ناانصافی سے کام مت لینا۔

ناانصافی اور گناہ کرنا بے حد آسان ہوجاتا ہے اگر آپ یہ سمجھ لیں کہ ہر شخص ہی یہی کام کر رہا ہے۔ مثلاً تطفیف یعنی کم تولنا بدنیتی پر مبنی کاروباری عادت ہے جو کچھ مقامات پر روا رکھی جاتی ہے، بہت سے لوگ یہ کام کرتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کیلئے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر ہر شخص ہی کم تول رہا ہے تو میں بھی یہ کرسکتا ہوں۔

معاشرے کی روایات اس میں بسنے والے افراد کے معمولات پر اثر انداز ہوتی ہیں اور اس معاشرے پر یہ بے جا الزام تراشی کہ ہر شخص یہ کرتا ہے، برائی کو قابلِ قبول بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ہمیں تعلیم دی کہ اگر برائی دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو، نہ روک سکو تو زبان سے اسے برا کہو اور ایمان کا آخری درجہ یہ ہے کہ کم از کم اسے دل سے برا جانو، یعنی اگر برائی آپ کے چاروں طرف پھیل چکی ہے چاہے وہ مذہب سے متعلق کوئی گناہ ہو یا حقوق العباد کی عدم ادائیگی اور چاہے وہ معاشرے کا معمول ہی کیوں نہ بن چکا ہو، آپ کا دل اس سے مطمئن نہیں ہونا چاہئے تاکہ آپ خود وہی برائی نہ کرنے لگ جائیں۔

چاروں طرف پھیلی ہوئی برائیوں، جرائم اور ظلم و ستم سے زیادہ تر لوگ متاثر ہوجاتے ہیں، اور آہستہ آہستہ گناہوں کے خلاف مزاحمت کم ہوتی جاتی ہے۔ اگلا مرحلہ یہ ہے کہ اگر آپ برائی کو روک نہیں سکتے تو برائی کو جائز سمجھنے لگ جاتے ہیں یا پھر آپ کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں یہ ہورہا ہے، تو میرے لیے بھی یہی کرنا ایک مجبوری ہے یعنی چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے آپ برائی کا حصہ بن جاتے ہیں جس کے خلاف حدیث کے بیان پر قرآنِ پاک بھی گواہی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر تم نے زمین پر موجود اکثریت کی پیروی کی تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔(سورۃ الانعام، آیت 116)۔

من حیث القوم ہمیں معاشرے کے معمولات میں اچھے برے کی تمیز کرتے ہوئے ان کی اندھا دھند تقلید سے بچنا ہوگا کیونکہ ایسا کرنے سے ہمارا ذہنی معیار پست ہوگا۔ اگر آپ کوئی غلط کام ہوتا دیکھیں تو اسے معاشرے کا معمول سمجھنے کی بجائے اس کی سختی سے مخالفت کرکے معاشرے کے معمولات کو درست کریں۔

حضورِ اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ جب کوئی گناہ ہوتا ہے تو وہ جو اسے دیکھ کر (کوئی ردِ عمل ظاہر کیے بغیر) غائب ہوجائے، اس کی مثال ایسے ہے جیسے وہ وہاں موجود ہی نہیں تھا، مگر گناہ نہ دیکھتے ہوئے بھی اسے قبول کرنے والے کی مثال گناہ کی جگہ موجود شخص کی سی ہے۔ یہ حدیث آپ کو برائی کے خلاف سخت مؤقف اپنانے پر زور دیتی ہے، کہ آپ نے برائی ہوتے ہوئے دیکھی ہو یانہ دیکھی ہو، آپ اس کی مذمت ضرور کریں تاکہ کسی بھی صورت میں آپ گناہوں کو فروغ دینے کا باعث نہ بنیں۔

ایک اور حدیث میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو تباہ کرنے والا پہلا عیب یہ تھا کہ (ان میں سے) ایک شخص ایک اور آدمی سے ملا اور کہا کہ اللہ سے ڈرو اور جو کچھ کر رہے ہو، اسے چھوڑ دو، کیونکہ یہ تمہارے لیے حلال نہیں، اس کے بعد وہ اگلے دن اسی (گناہگار) سے ملا اور اسے اپنے ساتھ کھانے پینے اور بیٹھنے سے نہیں روکا۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ نے ان کے دلوں کو آپس میں ملا دیا۔ (ابوداؤد اور ترمذی)

غور طلب بات یہ ہے کہ پہلے آدمی کا دوسرے کے گناہ سے انکار سخت نہیں تھا یعنی وہ صرف زبانی جمع خرچ کیلئے اسے گناہ سے روک رہا تھا۔ حدیث ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ گناہوں اور برائیوں کے خلاف سخت مؤقف اپنایا جائے تاکہ وہ معمول نہ بن سکیں اور ہم انہیں بے حسی کا شکار ہو کر عام سی بات نہ سمجھ لیں۔

البتہ کچھ ایسی باتیں ضرور ہیں جو دین پسند نہیں کرتا اور شریعت نے ہمیں ان سے روکا تاہم جب وہ معاشرے کا حصہ بن جائیں تو کچھ صورتوں میں وہ کراہت کے ساتھ جائز ہوسکتی ہیں۔

نمبر1۔ انتہائی ضرورت یا مجبوری کی صورت میں۔

نمبر2۔ جب زندگی خطرے میں ہو۔

نمبر 3۔ زیادہ بڑی برائی سے بچنے کیلئے (2 برائیوں میں سے چھوٹی کا انتخاب کرنا)

نمبر4۔ آپ اس برائی سے مکمل طور پر بچ ہی نہ سکیں (مثلاً سود یا رِبا کا نظام)، ایسی صورت میں آپ اسی حد تک اس برائی میں مبتلا ہوں جہاں تک آپ کی مجبوری بن جائے اور اسے کسی صورت خوشی خوشی قبول نہ کریں۔

معروف مفسر ابنِ تیمیہ کے مطابق جو شخص کسی ظالم کی حمایت کرے، وہی ظالم ایک روز اسے بھی آزمائش میں مبتلا کرے گا (مجموعۃ الفتاویٰ) اگر آپ فائدہ حاصل کرنے کیلئے کسی ظالم کی مدد کریں تو ایک دن وہی ظالم یا وہ ظلم آپ کو تباہ کردے گا۔

کسی بدعنوان نظام کی حمایت یا اس سے فائدہ حاصل کرنے کی صورت میں وہ نظام ہی آپ کی تباہی کا باعث بنے گا، اگر آپ کسی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کیلئے ناانصافی کی حمایت کریں گے، ایسی ہی ناانصافی آپ کو یا آپ کے اہلِ خانہ کو تباہ کردے گی، اس لیے آپ کو چاہئے کہ شریعت کے مطابق نیکی اور برائی کے معیارات قائم کریں اوربرائی کا جواز تراشنے کیلئے یہ نہ کہیں کہ ہر شخص یہی کرتا ہے، اس لیے میں بھی کرسکتا ہوں۔ 

Related Posts