پی ڈی ایم کا سفراختتام پذیر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان جاری کشیدگی کے بعد یہ کہنا قطعی غلط نہ ہوگا کہ پی ڈی ایم کا سفر اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے،حکومت کے خاتمے کے عزم کے ساتھ وجود میں آنیوالی پی ڈی ایم کو حکومت نے نہیں بلکہ خود ممبرجماعتوں نے اندھے کنوئیں میں دھکیل دیا ہے، اس اتحاد کے قیام کے وقت بھی اس غیر فطری قراردیا گیا تھا تاہم اب اعلانیہ مخالفت کے بعد پی ڈی ایم اپنی وقعت کھوچکی ہے۔

حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں یعنی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین سخت بیانات کے بعد خلیج واضح ہوگئی ہے، یہاں تک کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن جو دونوں جماعتوں کے مابین تنازعہ کا حوالہ دے رہے تھے وہ بھی اتحاد کو نہیں بچا سکے۔

مولانا فضل الرحمٰن ہرممکن کوشش کی کہ خدشات کو ختم کیا جائے اور انہوں نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا کہ پی ڈی ایم حکومت کیخلاف متحد ہے لیکن اب بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور پیپلز پارٹی بھی چھ ماہ پرانے حکومت مخالف اتحاد سے علیحدگی اختیار کرنے والی ہے۔

پیپلز پارٹی نے یکطرفہ فیصلہ کرکے مسلم لیگ (ن) کو پیچھے چھوڑکریوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنایا جس کے بعد صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔

پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا امیدوار متنازعہ تھا اور اس لئے پی پی کواپوزیشن لیڈر منتخب کرنے کا حق حاصل تھا۔

گیلانی چیئرمین سینیٹ نہیں بن سکے اور وہ ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے تنقیدی کردار ادا کریں گے۔

بڑھتے ہوئے اختلافات نے یقینی طور پر پی ڈی ایم کا وجود عملی طور پر خطرے میں ڈال دیا ہے جس سے وزیر اعظم عمران خان اور ان کے رفقاء نہایت خوش ہے اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کو پی ڈی ایم سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے مقابلے پیپلز پارٹی شروع سے معتدل رویہ اختیار کئے ہوئے تھی اور پیپلزپارٹی نے سب سے پہلے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے سے انکار کیااور اس متوقع لانگ مارچ کو ہونے سے پہلے ناکام بنادیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) نوازشریف کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھی جبکہ مریم نواز کو کمان ملنے کے بعد مشکلات میں مزید اضافہ ہوا اور ابھی بھی نوازشریف کی وطن واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی یقینی طور پر کبھی بھی اس جدوجہد کے لئے تیار نہیں تھی جس کی نواز شریف توقع کر رہے تھے۔

آخر کار پی پی نے عملی طور پر قدم اٹھایا اورپیپلزپارٹی کو جلد ریلیف ملنے کا امکان ہےاوراگلے انتخابات میں پی پی کی واپسی نظر آتی ہے۔

اب ایک بار پھر الزامات کی سیاست شروع ہوگئی ہے جس سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور حکومت اور وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کی آپس کی لڑائی میں بالکل محفوظ رہیں گے۔

Related Posts