ہماری معیشت اور مہنگائی کا عفریت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں مہنگائی اس وقت ہولناک حد تک بڑھ چکی ہےا ور آج پاکستان کا ہر طبقہ مہنگائی کا رونا روتا دکھائی دیتا ہے جبکہ حکومت پاکستان اپنی پوری کوشش کے باوجود ملک میں بڑھتی مہنگائی کے عفریت کو قابو کرنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔

مہنگائی کی وجہ عالمی مارکیٹ بتائی جاتی ہے اور حکومت اس پر بے بسی کا اظہار کرتی رہتی ہے مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ مہنگائی کا دور اس وقت سے شروع ہوا ہے جب سے عمران خان نے حکومت سنبھالی اور اس کا فائدہ ملک کے اشرافیہ نے پوری طرح اٹھایا۔ اس دور حکومت میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ امراء کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور انہی امیروں کے اداروں کی ترقی کو ملکی ترقی سے تعبیر کیا گیا۔

ندیم مولوی کے مزید کالمز پڑھیں:

عوام گھبراکیوں رہے ہیں؟

پی ٹی آئی کوئی وعدہ تووفا کرے

اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان ہمیشہ بیانات دیتے رہے کہ پاکستان میں کاروباری طبقہ ترقی کررہا ہے اور معیشت بھی بہتر ہورہی ہے ۔ کاش کہ اسی دوران عمران خان نے عوام کی زندگیوں پر ایک نظر ڈالی ہوتی تو شاید وہ تحقیقات کرتے کہ اگر ملک ترقی کررہا ہے تو عام انسان پریشان کیوں ہے،عوام کیلئے زندگی گزارنا مشکل کیوں ہوچکا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ہر طبقہ کے کاروباری حضرات قیمتیں بڑھاتے رہے اور ان کی روک تھام کرنے والے حکومتی ادارے خاموش تماشائی اور نجی اداروں کے ہاتھوں بلیک ہوتے رہے۔اگر ہم کھانے پینے کی چیزوں سے آغاز کریں تو 10 سال نہیں بلکہ اگر 3 سال پہلے کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ مہنگائی کس حد تک پہنچ چکی ہے۔

پاکستان میں گزشتہ 3 سال میں مرغی کے انڈے 60 روپے درجن سے 180 روپے درجن، تازہ دودھ 60 روپے لیٹر سے 160 روپے، بکرے کا گوشت ساڑھے 7 سو سے 16 سو روپے، ماش کی دال 110 سے 260روپے، مسور کی دال 110 سے 220 روپے، خوردنی تیل 120 سے 400 روپے تک پہنچ چکا ہے۔

اب اگر ان چند خوردنی اشیاء پر نظر ڈالیں تو حکومت مہنگائی کا ذمہ دار گزشتہ حکومت یا عالمی منڈی  کو قرار دیگی لیکن اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لینے یا اپنے ماتحت اداروں کی غفلت پر بات نہیں کی جائیگی۔

عام آدمی تحریک انصاف کی حکومت سے قبل بجلی کی فی یونٹ 11روپے 72 پیسے قیمت ادا کرتا تھا آج 24 روپے 60 پیسے میں ایک یونٹ خرید رہا ہے اور یہ وہ قیمت ہے جس میں حکومتی ٹیکسز اور بجلی کی فراہمی پر مامور اداروں کے ہولناک چارجز شامل نہیں اور اگر یہ چارجز بھی شامل کئے جائیں تو بجلی 28 روپے یونٹ پر چلی جاتی ہے۔

کیا ملک میں بجلی کی قیمت دوگنا سے زیادہ ہونے کا ذمہ دار بھی پی ٹی آئی حکومت گزشتہ حکمرانوں یا عالمی منڈی کو ٹھہرائے گی لیکن سچ تو یہ ہے کہ آج کی حکومت جن سابقہ معاہدوں پر تنقید کرتی ہے ان کے تحت غریب اور امیر سب کو بجلی 11 روپے یونٹ مل رہی تھی۔ گزشتہ حکومت نے بجلی پر نہ صرف عوام کو سبسڈی دی بلکہ قیمتوں پر کنٹرول بھی رکھا۔

تحریک انصاف نے تعمیراتی صنعت کو سبسڈی دی اور تمام لوگ جو اپنے کالے دھن کو سفید کرنا چاہتے تھے ان کو یہ موقع دیا کہ وہ اس شعبہ میں پیسہ لگاکر اپنے کالے دھن کو سفید کرلیں جس کا فائدہ ان امراء نے اٹھایا جن کے پاس ڈھیروں کے حساب سے سیاہ دھن تھا اور انہوں نے کنسٹرکشن انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرکے اپنے دھن کو سفید کرلیا اور اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو پاکستان میں اس چھوٹ کے بعدتعمیرات کے حوالے سے 10 فیصد بھی مزید سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آئیں۔

گاڑیوں کی قیمتوں میں 70 فیصداضافہ دیکھا گیا اور حکومت گاڑیوں کی فروخت بڑھ جانے کے اضافی اعدادوشمار پر خوش ہوتی رہی لیکن یہ نہیں سوچا کہ عوام مجبوری کے تحت مہنگی گاڑیاں خرید کر اپنی جمع پونجی خرچ کررہے ہیں۔اس کی صرف اور صرف یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ان 3 سالوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور لوگ مجبور ہوکر گاڑیاں یا موٹرسائیکلیں خریدتے رہے جس سے پیٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے پاکستان کو اضافی تیل خریدنا پڑا جس کا خمیازہ پاکستان کی معیشت کو اٹھانا پڑا اور تجارتی خسارہ مزید بڑھ گیا۔

اگر تحریک انصاف کی حکومت ہر ناکامی پر عالمی منڈی یا گزشتہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اداروں کو بہتر کرتی اور منصوبہ بندی اور پالیسیوں کو بہتر بناتے ہوئے معیشت کی بہتری کیلئے کام کرتی تو اسے آج کل جیسے دن نہ دیکھنے پڑتے اور ہم عالمی مہنگائی کا سامنا بھی کرلیتے لیکن آج بھی تحریک انصاف کی حکومت کے پاس کوئی معاشی ماڈل نہیں ہے جس کو دیکھ کر عوام مطمئن ہوجائیں کہ شاید اس نمونے کے تحت آئندہ چند سالوں میں معیشت بہتری کی طرف آجائے۔

Related Posts