عوام گھبراکیوں رہے ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 پاکستان میں لوگ فوری طور پر نتیجہ چاہتے ہیں اور ہمیشہ موجودہ خبر کو مستقبل سے ملا دیتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ماضی اورحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کا تعین کیا جاتا ہے لیکن آج جو حالات ہیں ان کی وجہ کیا ہے لوگ اس پر دھیان نہیں دیتے اور اپنا رونا روتے رہتے ہیں۔

پاکستان اسٹاک مارکیٹ کی بات کی جائے تو 2018ء میں صرف 3 کمپنیاں اسٹاک مارکیٹ میں داخل ہوئی تھیں اور آج 2022 ء تک 12 مزید نئی کمپنیوں نے ایس ای سی پی میں رجسٹریشن کروائی ہے۔

2018ء میں جب عمران خان کی حکومت نے معاشی تبدیلیاں کرنا شروع کیں اور اپنی پوری توجہ بینکنگ سیکٹر میں شرح سود پر لگائی تاکہ کورونا وائرس کے باوجود لوگ اپنے کاروبار کو چلاتے رہیں اور انہیں مشکلات کے دوران عمران خان صاحب نے بجلی کی قیمتوں میں بھی بے انتہا کمی کی۔

یہ وہ سال تھا جس میں اسٹاک مارکیٹ نہایت دباؤ میں جارہی تھی اور مارکیٹ انڈیکس 37 ہزار 66 پوائنٹس پر موجود تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں اور شرح سود کے حوالے سے اقدامات کے اثرات سامنے آنا شروع ہوئے تو پاکستان کی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوئی حالانکہ اس دوران کورونا وائرس زور پکڑتا رہا اور پوری دنیا میں کاروبار زندگی منجمد رہا۔

پاکستان میں عمران خان نے فیصلہ کیا کہ ملک میں کاروبار کو جاری رکھا جائیگا۔حکومت نے عوام کو بیروزگاری سے بچانے کیلئے اسمارٹ لاک ڈاؤن کا اقدام اٹھایا جس سے ملک میں معاشی پہیہ رواں رہا۔

2019ء کے دوران عملی طور پر چیزیں سستی ہونا شروع ہوئیں اس کی وجہ شرح سود اور بجلی کی قیمتوں میں کمی اور غیر ضروری امپورٹ کی کمی نے پاکستان کی معیشت کو بہتری کی جانب لے جانا شروع کیا جس کے نتائج کی وجہ سے 2020 ء اور2021ء میں معیشت بہتری کی طرف آئی اور اسٹاک مارکیٹ  45 ہزار 193 پوائنٹس پر پہنچی۔

اگر دیکھا جائے تو محض 3 سالوں میں 8 ہزار 127 پوائنٹس کا اضافہ دیکھا گیا اور والیم کی صورت میں 2018ء میں 194 ملین شیئرز کا کاروبار ہوا جبکہ 2021ء میں 513 ملین حصص کا کاروبار ہوتا ہوا دکھائی دیا۔اسی سال 2021ء میں 80 فیصد زیادہ بونسز اور مراعات بھی دی گئیں۔

سوچنا یہ ہے کہ اب چیزیں مہنگی کیوں ہورہی ہیں اور عوام کیوں گھبرارہے ہیں۔چیزیں اس لئے مہنگی ہورہی ہیں کیونکہ جو فیصلے عمران خان نے لئے تھے اس کے برعکس فیصلے اسٹیٹ بینک اور بیرون ممالک کے دباؤ کی وجہ سے شرح سود کو بڑھایا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتیں  بھی پچھلے چند ماہ سے بے انتہا بڑھادی گئی ہیں۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہر چیز پر مزید ٹیکس بڑھایا جارہا ہے جس کی وجہ سے غریب سے لے کر امیر تک ہر شخص حیران و پریشان ہے۔اگر عمران خان اپنے پچھلے اقدامات کو دہرائیں اور ٹیکسز کے ساتھ بجلی کی قیمتوں میں کمی کریں تو ایک بار پھر پاکستان کی معیشت تیزی کے ساتھ ابھرتی دکھائی دے گی۔

حکومتی سطح پر کچھ عرصہ کیلئے دباؤ ضرور آسکتا ہے لیکن عوام کی قوت خرید بہتر ہونے سے دباؤ کم ہوجائیگا اور حکومت کو مزید ٹیکسز ملیں گے لیکن اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو عوام کی قوت خرید کم سے کم تر ہوتی جائیگی اور جب چیزیں انسان کی پہنچ سے دور ہوجائیگی اور خریداری کی سکت ختم ہوجائیگی تو حکومت کو ٹیکسز نہیں ملیں اور حکومت مزید ٹیکس لگائے گی جس سے معیشت پر مزید دباؤ آئیگا۔

عمران خان نے جب بھی دباؤ میں آکر کوئی کام کیا ہے تو اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حکومت کی کامیابی ہمیشہ وزیراعظم عمران خان کے فیصلوں کی وجہ سے تھی لیکن گزشتہ 3 سالوں میں ان پر دباؤ ڈال کر غیر مقبول فیصلے کروائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے عمران خان اپنی مقبولیت تیزی سے کھورہے ہیں۔

Related Posts