پی ٹی آئی کوئی وعدہ تووفا کرے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 پی ٹی آئی اپنے تمام وعدوں سے بے وفائی کرتی ہوئی نظر آتی ہے، یہ جماعت اس مرد کی طرح ہوگئی ہے جو شادی سے پہلے اپنی ہونیوالی دلہن کو بہت سے سہانے خواب دکھاتا ہے مگر چند دن دن گزرنے کے بعد اپنی مجبوری اور بے بسی کا الزام دوسروں پر ڈالتے ہوئے خود نہایت ہی اچھا انسان، اچھا شوہر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔

پاکستانی عوام اور ان کی خواتین بہت ہی صابر و شاکر ہیں جوہر قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا جانتی ہیں مگر ان کو جھوٹ بول کر، اذیت پہنچا کر پریشان کرکے جب دبانے کی کوشش کی جاتی ہے تویا تو نتیجہ فریاد یا پھر روکر دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ان کاحال نہیں بدلتا۔

اسی طرح عوام کی آہ و بکا ء وزیراعظم عمران خان تک نہیں پہنچ پارہی۔آج وزیراعظم کے وفاقی وزراء بس عمران خان کو خوش کرنے میں مصروف ہیں اور پچھلے ساڑھے 3 سال میں کئی وزارتوں میں تبدیلی کرتے ہوئے ہر بار یہی کہا جاتا ہے کہ بس کچھ ماہ کی بات ہے ۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وزیراعظم عمران خان کو یہ نہیں معلوم کہ نجی اداروں کے ملازمین جو کہ اس ملک میں 80فیصد ہیں ، ان کی اجرت میں پچھلے 3 سالوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور مطالبے کی صورت میں انہیں نوکری سے نکال دیا جاتا ہے کیونکہ مالکان مجبور ہیں اور ان کے کاروبار کے اخراجات پچھلے 3 سالوں میں 70 گنا بڑھ چکے ہیں۔

ایسے حالات میں حکومت کی طرف سے بیان آتا ہے کہ مہنگائی پوری دنیا کا مسئلہ ہے لیکن جناب! گزشتہ 3 سال سے آج تکعوام کی زندگی جہنم بن چکی ہے۔بچوں کے اسکولز کی فیس آسمانوں سے باتیں کررہی ہے،بزرگوں کی بیماریوں کے علاج ،ادویات اور ٹیسٹ کیلئے لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں اور بڑے بڑے آپریشنز کے اخراجات کا بندوبست محض 2 صوبوں کیلئے تو ہوگیا ہے لیکن ان دونوں صوبوں میں بھی بڑھاپے میں ہونے والی عام بیماریوں کیلئے کوئی سہولت نہیں ہے جنہیں یومیہ بنیاد پر زندہ رہنے کیلئے ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔

گھر میں داخل ہوتے ہی انسان کو کھانے پینے کی اشیاء کی فکر لاحق ہوجاتی ہے جو آج غریب عوام کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں۔ چیزیں خرید کر اگر لے بھی آئیں تو انہیں پکانے کیلئے گھر کے چولہوں میں گیس نہیں ہوتی اور باہر سے سلنڈر یا لکڑیاں خرید کر بھی گزارہ کرنا بہت مشکل ہوچکا ہے ۔ان تمام مسائل کے باوجود مہینے کے آخر میں بجلی کا بل تنخواہ کی 30 فیصد رقم لے جاتا ہے اور پانی کیلئے مہنگا ٹینکرخریدنا پڑتا ہے۔

عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ ہم سے جو ہوسکتا تھا وہ ہم نے کیا اور کرینگے مگر مہنگائی کاطوفان جو پوری دنیا میں ہے اس کا ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ جناب عمران خان صاحب آپ اگر درست وقت اور صحیح قیمت پر اس ملک و قوم کیلئے خریداری کرنا شروع کردیں تو پھر آپ دنیا بھر کی مہنگائی پر قابو پاسکتے ہیں لیکن ہمارے یہاں شاہی لوگوں کی طرح حکومت کیلئے چیزیں خریدی جاتی ہیں جوکہ ایک شاہی اعلان یا ٹینڈر کے ذریعے چیزوں کو خریدتے ہیں جب مارکیٹیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں لیکن جب مارکیٹ نیچے ہوتی ہے تو بعض اوقات خریداری ہی نہیں ہوتی یا بس واجبی سی خریداری کی جاتی ہے اور الزام لگایا جاتا ہے کہ چیزوں کو رکھنے کیلئے گودام یا ٹینک نہیں ہیں۔

جناب عمران خان صاحب ! مہنگائی کے خاتمے کیلئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے اسی لئے شائد اس دنیا میں ماہر معاشیات اقتصادی پلان بناتے ہیں جس میں کم سے کم 5 سے 10 سال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تو کیا آپ کی حکومت نے آنیوالی مہنگائی کو مدنظر نہیں رکھا تھا ؟ یا آگے آنیوالے وقتوں میں بھی اسی قسم کی مہنگائی کیلئے کوئی منصوبہ بنایاجارہا ہے ؟  ورنہ پھر آگے چل کر بھی عالمی منڈی میں تیزی کا راگ الاپا جائیگا ۔

اگر حکومت کے پاس آنیوالے 3 سال کے حوالے سے کوئی منصوبہ ہوتا جس میں مہنگائی کو مدنظر رکھا جاتو آج اتنی مہنگائی نہ ہوتی ۔کھانے پینے کی اشیاء بھی اس مہنگائی کے دور میں مناسب قیمت پر دستیاب ہوتیں مگر آپ ان 3 سالوں میں صرف اپنے سیاسی دشمنوں کے قصے بیان کرنے میں لگے رہے اور ملکی معیشت کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔

عمران خان صاحب! اگر آپ اس ملک کے لوگوں سے محبت کرتے ہیں تو خدارا جو چیزیں آپ کے ہاتھ میں ہیں کم سے کم انہیں تو سستا کردیں۔ تعلیمی اداروں کو پرائیویٹ سیکٹر کی طرح بنادیں یا پرائیویٹ سیکٹر کی فیسیں کم کروادیں اور اپنے ہی شوکت خانم اسپتال کی لیبارٹری کے چارجز کو سب سے سستا رکھیں ۔ اس وقت شوکت خانم کے لیبارٹری چارجز بڑی نجی لیبارٹریز کے برابر ہیں جو کہ متوسط طبقے کیلئے ادا کرنا بہت مشکل ہے۔

پیٹرول کے اوپر کسی قسم کے سیلز ٹیکس اورلیوی نہ لگائیں تاکہ لوگوں کو آمد و رفت میں زیادہ پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور پیٹرولیم قیمتوں میں کمی سے دیگر اشیاء کی قیمتیں بھی کم کی جاسکتی ہیں جن کی قیمت میں ایندھن مہنگا ہونے کی وجہ سے اضافہ ہوجاتا ہے۔

بجلی کی قیمتوں میں کمی ہرانسان کیلئے خوش خبری ہوگی، اور یہاں ہمیں وہ زمانہ یاد آتا ہے جب کے الیکٹرک جیسے ادارے حکومت کے پاس تھے اور ہر دور میں وہ نجی اداروں سے کم پیسوں پر بجلی فراہم کرتے تھے جبکہ عوام اس زمانے میں بل کی ادائیگی بھی کم کرتے تھے۔

آج جب عوام بجلی کے بل وقت پر ادا کررہے ہیں تو بجلی بنانے والے ادارے آئے روز قیمتیں بڑھادیتے ہیں اور حکومت ان کو کنٹرول کرنے میں بے بس نظر آتی ہے۔خدارا کے الیکٹرک جیسے ادارے کو دوبارہ حکومت اپنی تحویل میں لے لے تاکہ عوام کو کم قیمت پر بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔

جتنے ادارے آپ پرائیویٹ سیکٹر کو دیتے جائینگے ، آگے جاکر آپ ان کے محتاج ہوجائینگے اور وہ اپنی من مانی قیمتیں بڑھاتے چلے جائینگے جس سے امیرامیرتر اور غریب غریب تر ہوتا رہے گا۔