سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر مذاکرات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کاروبار اور لین دین ہمیشہ زمینی حقائق کی بنیاد پر کرنا چاہئے، خاص طور پر جب اس کا تعلق ملک کے عوام اور کاروبارِ سلطنت سے ہو۔

تکنیکی اعتبار سے سلطنت ایک ایسی ریاست یا ملک کو کہا جاسکتا ہے جس پر کوئی بادشاہ حکمرانی کر رہا ہو، جبکہ پاکستان بظاہر ایک جمہوری اور اپنے آفیشل نام کے اعتبار سے بیک وقت اسلامی و جمہوری ملک بھی ہے۔

تاہم یہاں عام انتخابات سے قبل سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر مذاکرات ایک عام سی بات بن گئے ہیں جن پر اگر کسی عالمِ دین کا فتویٰ حاصل کیا جائے تو وہ اسے ناجائز ہی قرار دے گا۔

گزشتہ روز سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے 2 خبریں منظرِ عام پر آئیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ جے یو آئی (ف) اور مسلم لیگ (ن) کے مابین سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر ڈیڈ لاک برقرار ہے، مولانا فضل الرحمان نے پنجاب سے 9 نشستیں مانگیں۔

نجی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ جے یو آئی رہنماؤں نے پنجاب کے مختلف اضلاع سے 9 نشستیں دینے کا مطالبہ کردیا، تاہم ن لیگ باہمی گفتگو میں اس حوالے سے کوئی جواب دینے میں ناکام رہی۔

اگر ہم دوسری خبر کی بات کریں تو عام انتخابات کے دوران متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) اور مسلم لیگ (ن) کے مابین سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملے میں پیش رفت کا دعویٰ کیا گیا اور کچھ اور بھی انکشافات کیے گئے۔

اسی نجی ٹی وی نے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا، یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایم کیو ایم کراچی سے قومی اسمبلی کی 5اور صوبائی اسمبلی کی 10 نشستوں پر ن لیگ سے مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ کراچی کے حلقوں کے نام بھی سامنے آگئے۔

جن حلقوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے مذاکرات پر آمادگی کا عندیہ دیا گیا، ان میں این اے 243 کیماڑی، این اے 229، 230 اور 231 کے علاوہ این اے 239 ضلع جنوبی اور صوبائی اسمبلی کی 10 نشستیں بھی شامل ہیں۔

خدا خدا کرکے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کیلئے 8فروری کی تاریخ فائنل کی اور اب انتخابات کیلئے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے جانے، ان کی جانچ پڑتال اور اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے۔

ایسے میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات سیاسی اعتبار سے اسٹرٹیجک الائنس، سیاسی گروہ بندی، اپنی نمائندگی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے اور حاصل ذرائع کی تقسیم سے تعلق رکھتی ہے۔

بعض سیاسی جماعتیں اپنا ووٹ بینک برقرار بھی رکھنا چاہتی ہیں اور اندرونی تضادات سے بچنے کیلئے بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر آمادہ ہیں اور ان تمام سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی باتوں سے عوامی رائے عامہ میں شعور اجاگر کرنا بھی مقصود ہے۔

شعور اس بات کا کہ کس سیاسی جماعت کا ووٹ بینک کس حلقے میں ہے؟ کہاں کے لوگوں سے کس سیاسی جماعت کو کتنے ووٹوں کی توقع ہے اور الیکشن جیتنے سے قبل یہ باتیں سیاسی اعتبار سے آؤٹ آف سبجیکٹ نہیں گردانی جاسکتیں۔

سیاست ایک ایسی سماجی سائنس کا نام ہے جو کسی بھی معاشرے، ملک یا ریاست میں اقتدار کی تقسیم سے بحث کرتی ہے۔ سیاست کی سائنس سرکاری اداروں کے ڈھانچے، وظائف اور طریقہ کار کا مطالعہ کرتی ہے۔

سائنس کا یہ شعبہ عوامی سطح پر لوگوں کے رویوں سے لے کر من حیث القوم ہمارے رویوں تک ہر چیز کا احاطہ کرتا ہے اور اقتدار کا حصول اس کا ایک اہم جزو ہے، چاہے سیاست دان کتنی ہی بار یہ دعویٰ کریں کہ ان کی سیاست کا مقصد خدمت ہے، اقتدار نہیں۔

Related Posts