ملکی تباہی کی وجوہات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ماہرِ معاشیات اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو کم وسائل میں انسان کی ضروریات اور آسائشوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک ایسا منصوبہ بنائے جس سے اس انسان، ادارے یا ملک کو اُنہی وسائل کے اندر رہتے ہوئے تمام سہولیات فراہم کی جاسکیں جو کسی بھی انسان، ادارے یا ملک کی ضروریات پوری کرسکیں۔

ہر انسان، ادارے یا ملک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے محدود وسائل میں اپنی تمام خواہشات یا مفادات کا حصول ممکن بنائے۔ پاکستان میں گزشتہ 75 سال سے ماہرینِ معاشیات کا ایک ہی رونا ہے کہ پاکستان کے پاس وسائل بڑے محدود ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک ترقی نہیں کرپاتا اور مجبوراً قوم کو قرضوں کے بوجھ تلے دبنا پڑتا ہے۔

یہ اربوں ڈالرز کے قرضوں کا بوجھ جو آج ہم دیکھ رہے ہیں، آج یا کل کی بات نہیں بلکہ پون صدی کا قصہ ہے، جب سے پاکستان بنا ہے، ہم کسی نہ کسی مجبوری کے تحت ہر بار نت نئے قرض کے بوجھ تلے آجاتے ہیں۔ ایک قرض ادا نہیں ہوتا کہ پاکستان کو دوسرا قرض لینا پڑ جاتا ہے۔

پھر ہم اس کی وجہ سیاستدانوں کو قرار دیتے ہیں جبکہ اصل سبب سیاستدان نہیں بلکہ ان کی پالیسیز ہوتی ہیں جن کو غیر واضح اور مبہم کہا جاسکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان آج تک ترقی نہیں کرسکا۔

اب وقت آگیا ہے کہ عوام سیاستدانوں سے یہ پوچھیں  کہ وہ وزیرِ خزانہ، مشیرِ تجارت یا ماہرِ معاشیات کے عہدے پر فائز افراد سے سوال کیوں نہیں کرتے کہ وہ پاکستان کے کم وسائل میں بہترین منصوبہ بندی کیوں نہیں کی جاسکتی؟

اپنے معاشی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے سب سے پہلی چیز جس پر غور کرنا چاہئے وہ تعلیم ہے۔ ملک کے تعلیمی ادارے پیسے بنانے کے کارخانے بن چکے ہیں جہاں بچوں کو تعلیم و تربیت دینے کی بجائے ڈگری دینے کیلئے مختلف اسباق رٹوا کر رٹو طوطا بنا دیا جاتا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ آج تعلیم یافتہ لوگ بے روزگار ہیں۔ اگر تعلیم پر توجہ دی جائے اور اداروں کے اندر حقیقی تعلیم یافتہ افراد کو استاد مقرر کیا جائے تو ہمارے بچوں کو بھی حقیقی تعلیم میسر آئے گی۔ آج کل بچوں کا امتحان 3 سال کی عمر سے لیا جانے لگتا ہے مگر کیا آپ نے کوئی ایسا تعلیمی ادارہ بھی دیکھا ہے جو استاد کا امتحان لیتا ہو؟

بے شمار اسکولز میں کم تنخواہوں پر وہ اساتذہ بھرتی کر لیے جاتے ہیں جنہیں نہ پڑھانے کا شوق ہوتا ہے اور نہ ہی تعلیم سے کوئی محبت۔ مجبوری کے تحت کوئی کام نہ ملنے پر ہی لڑکیاں ٹیچر بن جایا کرتی ہیں جس کی وجہ سے والدین کو صرف یہی سننے کو ملتا ہے کہ یہ بچہ پڑھ نہیں رہا۔ اسی لیے وہ کلاس میں فیل ہوجاتا ہے۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہر وہ بچہ جو فیل ہوتا ہے، اصل میں اس کا استاد فیل ہورہا ہوتا ہے۔ بچے کی بجائے سزا تو ایسے استاد کو دینی چاہئے جو بچے کو تعلیم کی طرف راغب کرنے میں کامیاب نہیں ہوا، یا پھر ان والدین کو جو بچے کی تعلیم و تربیت پر خود بھی کوئی توجہ نہیں دیتے۔ 

معاشیات کی دوسری اہم ترین چیز اصل تجارتی مسائل کو تلاش کرکے ان کے حل تلاش کرنا ہے۔ تاجروں اور کاروباری حضرات کو اپنی تجارت یا کاروبار کی لاگت کو کم سے کم رکھنے کیلئے ایسی پالیسیز کی ضرورت ہے جو حکومت ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے متعارف کراسکتی ہے۔

سب سے پہلی چیز تاجر برادری اور کاروباری حضرات کو سستی بجلی فراہم کرنا ہے جو حکومت کا کام ہے نہ کہ مختلف جھوٹے سچے جواز گھڑ کر  بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا۔آج کل ملکی ترقی کیلئے سب سے اہم چیز یعنی بجلی کو حکومت نے نجی شعبے کے حوالے کررکھا ہے۔ 

غالباً اسی وجہ سے بجلی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے  حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ اگر حکومت بجلی گھر کو اپنی تحویل میں لے کر اسے نو پرافٹ نو لاس پر چلائے یا آٹے میں نمک کی طرح منافع رکھے تو پاکستانی عوام کو کم قیمت میں بجلی میسر آئے گی جس کی وجہ سے پاکستان کی عوام اور تاجر برادری کو فائدہ ہوگا۔

پاکستان کی دوسری اہم ترین ضرورت ہنر مندوں کو بلا سود قرض فراہم کرنا ہے تاکہ وہ ہنر مند جدید سے جدید کاروبار کی طرف جائیں اور پاکستان عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ ایکسپورٹس کرکے اپنا نام پیدا کرسکے جو کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔

اگراس کی مثال چاہئے تو ہمارے سامنے بنگلہ دیش، چین، جاپان اور کوریا موجود ہیں جنہوں نے اپنی نئی نسل کو ساری آسائشیں اور سہولیات فراہم کیں تاکہ وہ جدید ترین تجربات کرکے اس دنیا میں ایسی ایجادات سامنے لاسکیں جن کی بنیاد پر وہ ترقی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

تیسری اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ سیاسی لوگوں کو اور سیاستدانوں کو ووٹ دینے سے قبل عوام کو رنگ و نسل، تفرقہ بازی اور ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہو کر سوچنا ہوگا کہ جس شخص کا ہم انتخاب کر رہے ہیں، کیا وہ صادق اور امین ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ، ہنر مند، خوش اخلاق اور غریبوں کی ضروریات کا ادراک رکھنے والا انسان ہے یا نہیں؟

ہم جب صادق اور امین کو پسند کرتے ہیں تو بعض اوقات ہم اس شخص کی خود غرضی کو نہیں دیکھتے۔ اس شخص کی انسانیت اور غریبوں کا درد نہیں دیکھا جاتا۔ مطلب یہ کہ ہم صرف ایک چیز دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ وہ انسان ہمارے ووٹ کے قابل ہوگیا۔

دراصل لیڈر بننے کیلئے صرف صادق اور امین ہونا ضروری نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حب الوطنی، غریبوں کا درد، انسانیت کی سوجھ بوجھ اور اپنے آپ سے بالاتر ہو کر دوسروں کیلئے سوچنا اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ 75برسوں میں ہر سیاستدان اپنی پارٹی اور اپنی لیڈر شپ کے بارے میں سوچتا نظر آیا اور غربت دور کرنے کا نعرہ لگا کر غریب عوام کو مختلف خواب دکھا کر ان کے ووٹ حاصل کیے گئے جبکہ ایسے لوگ اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی ذاتی سوچ کے مطابق کام کرتے یا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نظر آئے۔ انہیں یا تو اپنی فکر تھی یا پھر اپنے ساتھی سیاستدانوں اور کابینہ اراکین کی، عوام کی تو بالکل نہیں۔ 

ضرورت اس بات کی ہے کہ خالصتاً عوامی لیڈر منتخب کیا جائے اور اگر کوئی سیاستدان عوام کے معیار پر پورا نہ اترے تو اسے حکومت سے برطرف کردیا جائے۔ اگر کوئی سیاستدان اپنے ملکی اداروں کا مفاد عزیز نہیں رکھتا، عوامی مفادات اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتا یا پھر عوام کو سڑکوں پر نکل کر احتجاج، تنازعات اور لڑائی جھگڑے پر مجبور کرتا ہے جس سے ملکی حالات خراب ہوں اور ان کی حکومت چلتی رہے، ایسے لوگ کبھی ملک کو ترقی نہیں دے سکتے۔ 

 

Related Posts