کرپشن کے الزامات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے کتنے ہی سیاسی رہنماؤں پر کروڑوں اربوں کی کرپشن کے الزامات لگائے گئے اور ملک کے عوام سے قومی دولت وطن واپس لانے کے وعدے کیے گئے تاہم افسوس کی بات یہ رہی کہ ایسا کوئی وعدہ وفا نہیں ہوسکا۔

گزشتہ روز بھی بدعنوانی کی 2 بڑی بڑی خبریں منظرِ عام پر آئیں جن میں سے ایک کا تعلق سندھ اسمبلی سے جبکہ دوسری کا سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے جوڑا گیا۔ دونوں خبروں میں بدعنوانی کے علاوہ کوئی قدرِ مشترکہ نہیں تھی۔

پہلی خبر کے مطابق سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے سمدھی صابر مٹھو کے خلاف ایف آئی اے کے اینٹی منی لانڈرنگ سرکل نے انکوائری شروع کردی جن کے اکاؤنٹس میں مبینہ طور پر بڑی لین دین ہوئی جس پر پوچھ گچھ 23اکتوبر کو ہوگی۔

اس ضمن میں ایف آئی اے کا کہنا یہ ہے کہ صابر حمید کے 19 اکاؤنٹس میں سے 14 پاکستانی ہیں جبکہ تمام 19 اکاؤنٹس میں لین دین کی مالیت 5 اعشاریہ 14 ارب ہے۔ ملزم سے بیرونِ ملک دوروں اور بینک اکاؤنٹس وغیرہ کا ریکارڈ طلب کر لیا گیا۔

اگر ہم دوسری خبر کی بات کریں تو سندھ اسمبلی کے شعبۂ پرنٹنگ اور پبلی کیشن کیلئے مختص بجٹ میں 50 کروڑ روپے کی بدعنوانی ہوئی۔ سینئر اسپیشل سیکریٹری نے اسپیکر سندھ اسمبلی کو خط لکھ کر معاملہ اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی۔

سینئر اسپیشل سیکریٹری کا خط کے متن میں کہنا تھا کہ گزشتہ 38سال سے اب تک سندھ اسمبلی کا اجلاس 1 ہزار 785روز ہوا، 400روز کے اجلاس میں اظہارِ خیال، بحث اور دیگر کارروائی کا ریکارڈ موجود جبکہ 1 ہزار 384روز کا ریکارڈ تعطل کا شکار ہے۔

خط کے متن میں سینئر اسپیشل سیکریٹری کا مزید کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی اپنا کافی ریکارڈ گم بھی کرچکی ہے۔ قانون کے مطابق سیکریٹری کا فرض ہے کہ وہ ہر اجلاس کی کارروائی کی رپورٹ تیار کروائیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی سندھ اسمبلی اور صابر مٹھو کے اکاؤنٹس میں اتنی ہی کرپشن ہوئی ہے جتنی کہ بتائی جارہی ہے؟ اور اگر ہوئی ہے تو کرپشن کا یہ پیسہ کہاں گیا؟ کیا یہ پیسہ ملک کے اندر موجود ہے یا باہر چلا گیا؟ اور اگر چلا گیا تو کیا یہ رقم کبھی قومی خزانے میں واپس آسکے گی؟

سب سے آخری سوال کا جواب ہم سب جانتے ہیں لیکن ایک اور سوال بھی ہے کہ کیا بدعنوانی کے حقیقی ذمہ داروں کو کبھی قرار واقعی سزا بھی ہوگی؟ کیونکہ ایون فیلڈ ریفرنس اور توشہ خانہ سمیت دیگر ریفرنسز میں اربوں کی کرپشن کرکے نواز شریف وطن واپس لوٹ آئے ہیں۔

نواز شریف تو وطن واپس لوٹ آئے لیکن وہ دولت جس کا عمران خان کے دور میں ملک سے وعدہ کیا گیا تھا کہ قومی خزانے میں جمع کرائی جاے گی، نواز شریف تو کیا، کسی کے بھی اکاؤنٹ سے وطن واپس آتی دکھائی نہیں دیتی۔

سب سے تکلیف دہ حقیقت تو یہ ہے کہ قومی ادارے الزامات لگا کر تحقیقات کرکے اربوں کی کرپشن ڈھونڈ نکالتے ہیں اور بعد ازاں خود ہی اس الزام سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں جیسے کوئی نادیدہ قوت وہ الزام لگاتے وقت یا اس سے پیچھے ہٹتے وقت ان کی ڈوریاں ہلا رہی ہو۔ 

 

Related Posts