قازقستان میں کشیدگی، روس کی مداخلت، خطے کا مستقبل کیا ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Tensions in Kazakhstan and Russian intervention: What will be the future of the region?

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

قازقستان کے دارالحکومت نورسلطان، استانا اور سب سے بڑے شہر الماتے میں مہنگائی اور پیٹرول قیمتوں میں اضافے کے خلاف چار روزہ مظاہرے شدت اختیار کرگئے ہیں۔

پر تشدد مظاہروں میں متعدد ہلاک و زخمی ہونے اور املاک کو شدید نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں، قازق چین پیٹرولیم پیداواری ادارے کے مزدوروں نے بھی ہڑتال اور مظاہرین کی حمایت کا اعلان کردیا ہے جبکہ روس نے اپنی فوجیں قازقستان بھیج دی ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق الماتے شہر پر مظاہرین کا مکمل قبضہ ہے، مظاہرین میئر آفس میں داخل ہوچکے ہیں اور مظاہرے ملک کے مشرقی علاقوں تک پھیل گئے ہیں، کئی مقامات پر مظاہرین نے پولیس اور فوج کو پسپا کردیا ہے، سوشل میڈیا پر وائرل ایک وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عوامی ہجوم فوجی سپاہیوں کو گھیر کر نہتا اور گرفتار کر رہا ہے۔

اس پس منظر میں قازقستان کے صدر قاسم جمرات تکایوف نے کابینہ برخواست کر کے دو ہفتے کے لئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق قازقستان میں انٹرنیٹ مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے، حکومتی ذرائع کے مطابق 200 سے زائد مظاہرین گرفتار کئے جاچکے ہیں۔

ایک اطلاع کے مطابق 1991 میں آزادی سے 2019 تک مطلق العنان حکمران سابق صدر نورسلطان نذربائیوف کا علاج کے بہانے بیرون ملک منتقل ہونے کا امکان ہے، 2019 میں نذربائیوف کے اچانک مستعفی ہونے کے بعد صدر بننے والے تکایوف نے مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کا اعلان کیا ہے اور ملک چھوڑنے کا امکان مسترد کر دیا ہے جبکہ مخدوش حالات کے پیش نظر روسی سفارتی عملے کا قازقستان سے انخلاء شروع ہوگیا ہے۔

ایل پی جی گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے خلاف یہ مظاہرے تیل کی دولت سے مالا مال منگستاو صوبے کے قصبے زانا اوزن میں چار روز قبل شروع ہوئے اور ملک بھر میں پھیل گئے، شدید مظاہروں کے بعد صدر تکایوف نے حکومت کی برطرفی اور قیمتوں میں 50 فی صد کمی کا اعلان تو کردیا ہے، تاہم مظاہروں کی شدت میں کمی نہیں آئی۔

آزادی کے بعد تین دہائیوں سے قازقستان پر نورسلطان نذربائیوف اور ایک قلیل تعداد بدعنوان اشرافیہ کی مکمل اجارہ داری ہے، موجودہ صدر بھی سلطان نذربائیوف کے چنیدہ اور ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں۔

قازقستان کے حکمران طبقے کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال 28 لاکھ مربع میل پر پھیلے مغربی یورپ سے بڑے ملک کے وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کے ذریعے اس طبقے نے اربوں ڈالر سیاہ دھن اور جائیداد بنالی ہے۔

قازقستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کا نواں بڑا ملک ہے جبکہ اس کی کل آبادی ایک کروڑ 90 لاکھ ہے، اور فی کس آمدنی 3250 امریکی ڈالر کے قریب ہے، پاکستان کی فی کس آمدنی کا تخمینہ قریب 600 امریکی ڈالر ہے۔

قازقستان میں طویل عرصے سے مطلق العنان حکومت نے عوامی جذبات کے اظہار پر مکمل پابندی لگا رکھی تھی، سیاسی مخالفین اور مظاہروں کو سختی سے کچل دیا جاتا تھا، قازقستان کے مرد آہن نور سلطان نذربائیوف پر مخالفین کو بزور قوت خاموش کرانے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالوں سے کی جانے والی درجہ بندیوں میں قازقستان نچلے درجے کے ممالک میں شامل ہے، تاہم تضاد یہ ہے کہ قازقستان اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کا ممبر بھی ہے۔

گزشتہ تیس سالوں میں قازقستان میں اسی ظالمانہ طرز حکومت کی وجہ سے بظاہر سکون اور استحکام دکھائی دیتا تھا، اسی لئے چین سمیت کئی ممالک نے قازقستان کی تیل و گیس کی صنعت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، ایک خیال یہ بھی ہے کہ ملک میں روس کا اثر و رسوخ کم جبکہ چین کا نفوذ بڑھ رہا ہے۔

امریکہ چین کا راستہ روکنے اور یوکرائن کے معاملے پر روس کو کسی ممکنہ جارحیت سے باز رکھنے کے لئے وسط ایشیا میں عدم استحکام پیدا کرکے روس کو بھی پیغام دینا چاہتا ہے۔ تاہم یہ ایک روایتی روسی پروپیگنڈہ ہے کہ وہ اپنی سابقہ ریاستوں میں پیدا ہونے والی ہر مشکل کا الزام امریکہ و مغربی یورپ پر ڈالتا ہے۔

بادی النظر میں سلطان نذربائیوف کے بعد اشرافیہ کا اقتدار پر کنٹرول کمزور پڑ گیا ہے اور عوام نے اگلا پچھلا حساب چکتانے کا فیصلہ کرلیا ہے، کیا حکمران اشرافیہ اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب ہوگی یا عوامی انقلاب نذربائیوف کی باقیات کو بہا لے جائے گا یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔

Related Posts