جسٹس قاضی فائز کیس: کوئی شہری اپنی اہلیہ کے اثاثے ظاہر کرنے کا پابند نہیں، وکیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Justice Issa raises serious questions over larger bench for presidential reference

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران وکیل صفائی بابرستار کاکہناتھاکہ کوئی شہری اپنی بیوی یا دیگر اہل و عیال کے اثاثے ظاہر کرنے کا پابند نہیں،جج نے صرف اپنے ہی اثاثے ظاہرکرتے ہوتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیخلاف ریفرنس اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ،جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بنچ نے سماعت کی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کےوکیل بابرستارپیش ہوئے۔

وکیل بابر ستار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آ ئین اور انکم ٹیکس قوانین انفرادی ذمہ داری سے متعلق ہیں اہلیہ کے گوشوارے جمع کرانے کا انکم ٹیکس قانون میں ذکر نہیں۔ آٗئین ججز کو عام افراد کی نسبت زیادہ تحفظ دیتا ہے۔

اس کیس میں قانونی مراحل کو اپنایا نہیں گیا، صرف ٹارگٹ کو مد نظر رکھ کر اقدامات کیے گئے، ٹیکس اتھارٹی نے اپنے اختیارات کادرست استعمال نہیں کیا، ٹیکس قوانین کے تحت آج تک کسی سول سرونٹ کیخلاف کارروائی نہیں ہوئی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بظاہر تینوں جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی ہیں، آپ نے دستاویز سے بتاناہے کہ جسٹس عیسی کی اہلیہ زیر کفالت ہیں یا نہیں، جس طرز کا خرچ ہے وہ آ مدن کے مطابق نہیں، کیس میں جج کے مس کنڈکٹ کا الزام ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پراپرٹی 2004 کی ہے تو ٹیکس قوانین کا جائزہ بھی لینا ہوگا،بابر ستار نے کہا کہ 5 اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ بنے، کیا سپریم کورٹ میں آنا نئی تعیناتی ہے؟۔

جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ آنے پر ہائی کورٹ کا کنڈکٹ ختم ہو جاتا ہے۔ بابر ستار نے جواب دیا کہ جی بالکل یہ میری لیگل معروضات کا حصہ ہے کہ ہائی کورٹ کا کنڈکٹ سپریم کورٹ آنے پر ختم ہو جاتا ہے، ساڑھے سات ہزار پاؤنڈبیرون ملک جائیدادوں کی کل مالیت ہے جو اسلام آباد کی جائیدادوں کی مالیت سے زیادہ نہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ریفرنس اس قابل نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل اس کو دیکھے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ صرف منیر اے ملک کی انکم ٹیکس پرمعاونت کرنے آئے تھے، مہربانی کرکے اسی تک رہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عملی طور پرکیس میں 3 ٹیکس گوشواروں پربات ہوگی، آرٹیکل 10 اے کا اطلاق صدارتی ریفرنس پر نہیں ہوتا،آ رٹیکل 10 اے میں سول اور فوجداری ٹرائل کا ذکر ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی نہ سول ہے نہ فوجداری۔

بابرستارنے کہا کہ جج کوآرٹیکل 10 اے کے مطابق شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے، قانون کے مطابق عمل کو بائی پاس نہیں کیا جاسکتا، جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل بابرستارنے کہا کہ آئین اورانکم ٹیکس قوانین انفرادی ذمے داری کی بات کرتے ہیں۔

، وکیل بابر ستار نے کہا کہ کیا بلڈنگ کوڈ اور ٹریفک چالان بھی جج کے کنڈکٹ میں آئے گا؟ یقیناً جج کا ٹریفک پولیس کو کہنا کہ وہ جج ہے چالان نہیں ہوسکتا غلط ہوگا، اس کیس میں قانونی مراحل کو اپنایا نہیں گیا۔

بابرستار نے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کا کام پلاننگ اور ریسرچ ہے، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو قانونی تحفظ حاصل نہیں،بابرستارنے کہا کہ نیویارک میں میری تنخواہ اچھی تھی تو فلیٹ خرید لیا، اگرمیرے والد جج ہوتے تو شاید انہیں بھی شوکاز نوٹس مل جاتا۔

جسٹس منیب اخترنے کہا کہ ریفرنس صرف ایک کےخلاف نہیں دوسرے جج کے خلاف بھی ہے،وکیل بابرستار نے کہا کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس کی کہانی بھی پاناما طرز کی ہے، پاناما کیس میں بھی بیوی بچوں کے اثاثوں پر بات ہوئی، جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ سے سوال بار ثبوت سے متعلق بھی ہوگا۔

بابرستار نے کہا کہ افتخارچوہدری کیس کا فیصلہ آیا تو آرٹیکل 10 اے آئین کا حصہ نہیں تھا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ حقائق کے درست جائزے سےجج کا بنیادی حق ختم نہیں ہوسکتا، بابر ستار نے کہا کہ اس کیس میں نہ تو حقائق کو مدنظر رکھا گیا اور نہ قوانین کو، جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ زیرکفالت ہیں یا نہیں، کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا۔

بابر ستار نے کہا کہ ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اثاثہ ظاہر نہ کرنے کا الزام لگایا گیا، ہمارا موقف ہے کہ نہ اثاثے چھپائے گئے اور نہ غلط بتائے گئے،عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

Related Posts