صدارتی ریفرنس سے پہلے جسٹس فائز عیسیٰ کی لندن میں جاسوسی کی گئی، وکیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس ، اگر صدر جج کی انکوائری کریگا تو عدلیہ کی آزادی کہاں کھڑی ہوگی ، جسٹس منیب اختر

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ دھرنا کیس کے فیصلے کے دوران ان کے موکل کی نگرانی کی گئی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کی ابتدا میں وکلا رہنما حامد خان نے عدالت سے استدعا کی کہ ملک میں جاری آزادی مارچ کی وجہ سے راستے بند ہیں اور دوسرے شہروں سے وکلا سپریم کورٹ نہیں پہنچ پائے لہذا سماعت آزادی مارچ کے بعد رکھی جائے،عدالت نے اٹارنی جنرل کی جانب سے التوا کی مخالفت پر حامد خان کی استدعا مسترد کردی۔

جسٹس فائزعیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے 2017 تک اپنی اہلیہ اور بچوں کو کوئی تحفہ نہیں دیا، 2017 میں جسٹس فائز عیسیٰ نے کوئٹہ میں جائیداد فروخت کی جس کی رقم اپنی بیٹی اور داماد کو دی۔

وکیل کاکہناتھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے داماد لاہور میں گھر خریدنا چاہتے تھے جس کے لیے پیسوں کی کمی تھی جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے رقم ادا کی،10 مئی 2019ء کو درخواست گزار کی ٹیکس تفصیلات سے متعلق اسسٹنٹ کمشنر ضیاء احمد بٹ کو خط لکھا گیا، اسی روز کمشنر ٹیکس نے شہزاد اکبر کو خط بھیجا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ دھرنا کیس اور نظرثانی کی درخواستوں کے دوران لندن میں جسٹس عیسیٰ کی جاسوسی کی گئی، جسٹس قاضی فائز کے 7 مارچ کے فیصلے کے بعد حکومتی اتحادیوں کے اعتراضات آنا شروع ہوگئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت قانون کی طرف سے ریفرنس تیار کر کے صدر پاکستان کو بھجوایا گیا، وزیر اعظم کی ہدایت پر صدر پاکستان نے ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیجا حالانکہ آئین کی رو سے وزیر اعظم، صدر مملکت کو براہ راست اس طرح کی ہدایت نہیں دے سکتے۔

وکیل منیر اے ملک نے مزید کہا کہ صدارتی ریفرنس پر صدر مملکت نے وزیر اعظم کے مشورے پر انحصار کیا، ریفرنس دائر کرنے میں صدر، وزیر اعظم، اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور سیکریٹری قانون شامل ہیں۔

منیر اے ملک نے دلائل دیے کہ، ڈائریکٹر ایف آئی اے رضوان نے جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کا ریکارڈ نادرا سے چیک کرایا، کچھ علم نہیں، حکومت کو لندن جائیدادوں کے ایڈریس کیسے ملے، لندن کی کوئی جائیداد جسٹس فائز عیسیٰ کے نام نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ درخواست کے مطابق دھرنا کیس کے فیصلے کے دوران نگرانی کی جاتی رہی،جس پر منیر ملک نے کہا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان جلد استعفیٰ دینے والے ہیں،بلاول بھٹوزرداری کا دعویٰ

منیر اے ملک نے کہا کہ ریفرنس میں جائیداد کے بے نامی دار ہونے کا الزام نہیں لگایا بلکہ الزام یہ ہے کہ جائیدادیں اہلیہ اور بچوں کے نام ہیں جو ظاہر نہیں کی گئیں، ریفرنس میں یہ شامل نہیں کیا گیا کہ اہلیہ اور بچے زیر کفالت ہیں، اس حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا۔

جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا جائیداد کی چھان بین کے دوران درخواست گزار یا ان کی فیملی نے برطانیہ کا دورہ کیا تھا؟ منیر اے ملک نے جواب دیا کہ درخواست گزار کی فیملی لندن میں رہائش پذیر ہے۔

وکیل منیراے ملک کاکہنا تھا کہ ریفرنس میں کرپشن اور بد دیانتی کا الزام نہیں لگایا سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی خفیہ ہوتی ہے تو اس کی چیزیں باہر کیسے آئیں؟ درخواست گزار کے خلاف سوچ سمجھ کر منصوبہ چلایا گیا۔

منگل تک کیس کی سماعت ملتوی کرنے سے قبل بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس عیسیٰ کے وکیل کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’ آج آپ نے اچھے دلائل دیے ۔‘

Related Posts