صابونی معیار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سمجھداری جب حد سے بڑھ جائے تو حماقت سے بھی بدتر شے وجود میں آجاتی ہے اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری موجودہ نوجوان نسل میں سمجھداری حد سے بڑھنے لگی ہے۔ اس کے سامنے مقابلے کا ایک ایسا مصنوعی چیلنج رکھدیا گیا ہے جس میں اسے نوکری کا مقابلہ درپیش ہے اور مقابلہ بھی اپنے دوستوں سے ہی ہے۔ اسے دوستوں کو نیچا دکھانا ہے اور انہیں پیچھے چھوڑنا ہے۔ پھر حد یہ ہے کہ اس عمل کو وہ “ترقی” بھی سمجھتا ہے حالانکہ یہ ایک بدتر زوال سے زیادہ کچھ نہیں۔

آگے بڑھنے اور دوستوں کو پیچھے چھوڑنے کے اس عمل سے یہ اپنا کس طرح سے نقصان کرتا چلا جاتا ہے اس کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ اس کے نزدیک معیار زندگی کی بدتری اور بہتری اس بات سے طے ہوتی ہے کہ صبح اٹھ کر آپ نہاتے کس معیار کے صابن و سامان سے ہیں۔ چنانچہ صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ جب اس کی تنخواہ بیس ہزار ہوتی ہے تو اس کا غسل مناسب سے ٹوتھ پیسٹ، صابن، سرسوں کے تیل اور مناسب سے پرفیوم میں پورا ہوجاتا ہے۔ لیکن کیریئر کے دوران جوں جوں یہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اپنی تنخواہ میں اضافہ کرواتا چلا جاتا ہے توں توں اس کے نہانے کے سامان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

تنخواہ بیس سے پچیس ہزار ہوجائے تو صابن کے ساتھ شیمپو بھی شامل ہوجاتا ہے۔ پانچ ہزار مزید بڑھ جائیں تو فیس واش اور باڈی سپرے بھی آجاتا ہے۔ تنخواہ کا یہ مزید کے بعد مزید اضافہ تین چار قسم کی کریموں اور نہ جانے کن کن چیزوں کی صورت اس کے غسل خانے کی رونق بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ پھر کریموں میں سے بھی ہونٹوں کے لئے الگ، چہرے کے لئے الگ اور بالوں کے لئے الگ کریمیں آنی شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک دن آتا ہے کہ نہانے کی تمام ممکنہ چیزیں اس کے غسل خانے میں ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ لیکن اس کی ترقی کا عمل یعنی تنخواہ میں اضافہ اب بھی جاری رہتا ہے جو اس حد سے زیادہ سمجھدار انسان سے کچھ نئے اقدامات کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ اسے تو “معیار زندگی” بہتر کرنا ہے جس کا آغاز اس کے نزدیک غسل خانے سے ہوتا ہے۔

سو آمدنی میں مزید اضافے کا بنیادی تقاضا اس کے نزدیک یہ ہے کہ آمدنی میں اضافہ ہوتے ہی اپنے خرچے بھی بڑھا لئے جائیں۔ اب چونکہ صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ مارکیٹ میں کوئی ایسی چیز تو بچی نہیں جسے اپنے غسل خانے کا حصہ بنا لیا جائے چنانچہ اب یہ صابن، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ، کریموں اور پرفیومز کے معیار بہتر کرنے شروع کردیتا ہے۔ یوں یہ سفر رکتا کبھی نہیں کیونکہ مارکیٹ میں یہ اشیاء ہزاروں روپے والی بھی دستیاب ہیں۔ غسل خانہ تو از راہ تفنن فوکس ہوا ورنہ یہ حماقتیں رہن سہن کی دیگر چیزوں میں بھی آج کا سمجھدار ترین انسان کرتا چلا جاتا ہے اور رکنے کا نام نہیں لیتا۔

نتیجہ یہ کہ جتنا یہ اس دن اپنی تنخواہ کم ہونے پر پریشان تھا جب اس کی تنخواہ بیس ہزار تھی اس سے زیادہ یہ آج ایک لاکھ روپے تنخواہ لے کر پریشان رہتا ہے اور یہ طے ہے کہ جس دن اس کی تنخواہ پانچ لاکھ ہوگی اس روز بھی یہ آج ایک لاکھ والے دن سے پانچ گنا زیادہ پریشان ملے گا۔ اس کو احساس ہی نہیں کہ یہ غسل کتنا ہی مہنگا کیوں نہ کرلے اس کی اوقات فیس بک پر کئے گئے اس کے ایک کمنٹ سے ہی ظاہر ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس کے کمنٹس میں اس کے صابن، شیمپو اور کریموں کے اثرات نہیں کچھ اور ظاہر ہو رہا ہوتا ہے۔ اچھی تنخواہ بہتر انسان ہونے کی نہیں بہتر نوکر و پروفیشنل ہونے کی دلیل ہے۔ آپ بخاری شریف کا درس بہت اچھا دیتے ہیں، یا آپ اکاؤنٹس بہت اچھے مینٹین کر لیتے ہیں، آپ عمارتوں کے نقشے بہت اچھے بنا لیتے ہیں، آپ مریض کا آپریشن بہت اچھا کر لیتے ہیں تو اس سے آپ کی ان شعبوں میں مہارت تو ظاہر ہوجاتی ہے لیکن یہ طے ہونا ابھی باقی رہتا ہے کہ آپ ایک بہتر انسان بھی ہیں کہ نہیں؟۔

انسان بہتر تب کہلاتا ہے جب وہ اعتدال کی اہمیت سمجھتا ہو اور لوگوں کو اپنے صابن، شیمپو اور پرفیوم کی خوشبو سے نہیں بلکہ علم، خیالات اور سماجی کردار کی خوشبو سے متاثر کرنے کا ہنر جان لے۔ اور خاص طور پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ غسل خانی ترقی حماقت کے سوا کچھ نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں آپ دوستیاں بھی غسل خانے کے معیار کے مطابق کرنے لگتے ہیں۔ جوں جوں آپ کا غسل مہنگا ہوتا جاتا ہے توں توں آپ گرانقدر کے بجائے مہنگے دوستوں کا انتخاب کرتے چلے جاتے ہیں جو آپ جیسے حد سے زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں۔ آپ پچھلا لائف سٹائل ہی نہیں بلکہ اس لائف سٹائل والے دوست بھی چھوڑتے چلے جاتے ہیں کیونکہ آپ کے نزدیک دوستی کی اہلیت کردار نہیں صابن کے معیار سے طے ہوتی ہے !

اس صابونی ذہنیت کو اندازہ ہی نہیں کہ یہ نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا ہے۔ مہنگے صابن کے ساتھ مہنگے دوست چننے والی اس ذہنیت کو ہم نے اس پستی میں بھی گرتے دیکھ رکھا ہے کہ ایک دن آتا ہے کہ جب یہ اپنے سگے باپ پر شرمانے لگتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ابا جی کا معیار ان کے مہنگے صابن سے میل نہیں رکھتا ۔ سو یہ ان ایام میں بہت پریشانی کا شکار رہتے ہیں جب اباجی گاؤں سے شہر آجائیں۔ خدا علیم ہے ہم نے وہ بدبخت بچشم خود دیکھ رکھے ہیں جنہوں نے گھر کے ایک کونے میں تشریف فرما والد کا تعارف دوستوں سے “گاؤں والا” کہہ کر کرایا۔ان صابونی نمونوں کو اتنی بھی عقل نہیں کہ وہ آج جو کچھ ہیں اسی گاؤں والے کی محنت سے ہیں۔ اگر باپ کے شکر گزار اور احسان مند نہیں ہوسکتے تو کم از کم اس درجے کی بختی تو نہ دکھائی جائے۔ اگر پیسہ اور صابن کا معیار ہی عظمت کی دلیل ہے تو پھر ملک ریاض کو سقراط، میاں منشاء کو افلاطون اور کسی موتی والا کو ارسطو ڈیکلئر کر دیجئے۔ کیونکہ سب سے مہنگا صابن تو انہی کے پاس ہے !

Related Posts