چھوٹی جنگ مگر غیر معمولی شکست

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 فلسطین اور اسرائیل کا عسکری محاذ جنگ بندی کے بعد ٹھنڈا پڑچکاہے، جب بری، بحری اور فضائی ہتھیاروں سے لیس ملک ایک مزاحمت کار تنظیم کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر آمادہ ہوجائے تو اسے شکست کے سوا کوئی نام دیا ہی نہیں جاسکتا لیکن یہ شکست محض ایک عسکری شکست نہیں بلکہ یہ ایک ایسی شکست ہے جو اسرائیل کو عسکری کے ساتھ ساتھ ان تمام غیر عسکری محاذوں پر بھی ہوئی ہے جن کی مدد سے ہی قومیں عسکری جنگیں جیتتی ہیں۔

مثلاً قانون کا محاذ، اخلاق کا محاذ، سیاست کا محاذ، میڈیا کا محاذ اور عالمی رائے عامہ کا محاذ۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ اسرائیل کو ان تمام محاذوں پر شکست ہوئی ہے اور شکست بھی ایسی کہ بینجمن نیتن یاہو اس لمحے کو کوستا ہوگا جب اس نے اس حالیہ جارحیت کا فیصلہ کیا تھا۔

اگر ہم اس ہمہ گیر شکست پر ایک اجمالی نظر بھی ڈالیں تو نظر یہ آتا ہے کہ عسکری محاذ کچھ سالوں سے اسرائیل کے آئرن ڈوم کا بڑا شور تھا۔

اسرائیلی شہریوں کو ان کی حکومت کی جانب سے یقین دلایا گیا تھا یہ آہنی گنبد انہیں مکمل تحفظ فراہم کرے گا مگر اس گنبد کے ان بڑے بڑے شگافوں نے اب ہر اسرائیلی شہری کا احساس تحفظ چھین لیا ہے جو دیسی ٹوٹکوں والے راکٹوں نے اس چھت میں کر دیئے ہیں۔

عسکری طور پر اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ کتنے راکٹ اس آہنی گنبد نے روکے اور کتنے اپنے اہداف تک پہنچے کیونکہ یہ دو ریگولرفوجوں کے مابین ہونے والی جنگ نہ تھی بلکہ ہاتھ اور چیونٹی کی لڑائی تھی جس کے نتیجے میں ہاتھی ہانپ رہا ہے۔

سو اہمیت اس بات کی ہے کہ ملٹی بلین ڈالرز کے اس پورے پراجیکٹ کا توڑ اگلوں نے ٹیکنالوجی نہیں بلکہ “سادگی” کی صورت کر لیا جس سے ٹیکنالوجی کی برتری کو ایک بار پھر شرمندگی کا سامنا ہے۔

زمینی حقیقت یہ ہے کہ اگر چار ہزار میں سے دس راکٹ بھی ہدف تک پہنچ گئے ہیں تو اس کے نتیجے میں پوری آبادی اس نفسیاتی خوف کی اسیر ہوچکی کہ اگلی بار والے دس راکٹ کس کس کی زندگی کا چراغ گل کریں گے ؟ کوئی نہیں جانتا۔

عسکری حوالے سے ہی دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ اسرائیل اس بار زمینی فوج استعمال کرنے کی جرات ہی نہ کرسکا۔

پہلے ہی تین دنوں کی صورتحال دیکھ عالمی تجزیہ کار کہہ اٹھے تھے کہ مزاحمت کاروں کی حکمت عملی سے لگ رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو زمینی فوج بھیجنے پر اکسا رہے ہیں اور اگر یہ فوج غزہ میں داخل ہوئی تو اس بار اس کے لئے صورتحال بیحد مہلک ہوگی۔

سو اس حوالے سے بھی عسکری و نفسیاتی برتری اسرائیل نہیں فلسطینیوں کے پاس رہی۔ اگر ہم جانی نقصان اور اس کے اثرات کا جائزہ لیں تو فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیل کی گیارہ اموات بظاہر اسرائیل کی برتری دکھاتی ہیں لیکن یہی برتری اس کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے کیونکہ عالمی رائے عامہ کے سامنے اس کا ظلم بے نقاب ہوگیا ہے اور دنیا کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے دارالحکومت میں ہونے والے مظاہروں میں گیارہ اسرائیلی نہیں بلکہ ڈھائی سو کے قریب فلسطینی شہداء کےحق میں ہی آواز بلند ہوئی۔

ایک اور اہم شکست وہ ہے جو اسرائیل کو سوشل میڈیا کے محاذ پر ہوئی۔ اس شکست کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ جو اسرائیلی مظالم عالمی میڈیا ہمیشہ سے چھپاتا آرہا تھا وہ اس بار سوشل میڈیا کے ذریعے “سٹیزن جرنلسٹ” پوری دنیا کے سامنے لے آئے اور عالمی رائے عامہ کو بیدار کرنے میں سٹیزن جرلزم نے ہی کلیدی کردار ادا کیا۔

سوشل میڈیا کے محاذ پر اسرائیل کو ہونے والی شکست کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ امریکہ کے کئی یہودی سوشل میڈیا ایکٹوست اور صحافی بھی فلسطین کی حمایت میں کچھ ایسے بولے کہ راتوں رات عالمی شہرت حاصل کر گئے اور اب مین اسٹریم میڈیا پر ان کے انٹرویوز ہو رہے ہیں اور یہی معاملہ اسرائیل کو اخلاقی محاذ پر بھی شکست فاش سے دوچار کرتا نظر آتا ہے۔

دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہوگا جہاں عوام اسرائیلی مظالم کے خلاف سڑکوں پر نہ آئے ہوں اور دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جس کے سوشل میڈیا پر اسرائیل کے خلاف ٹرینڈز نہ چلے ہوں۔ جب ان آوازوں میں یہودی آوازیں بھی اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں شامل ہوجائیں تو آپ فلسطینیوں کو حاصل اخلاقی برتری کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہونے والی اس شکست کے اثرات امریکی میڈیا اور دارالحکومتوں پر کس طرح کے پڑے اس کا اندازہ گیارہ منٹ کے اس انٹرویو سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو سی این این نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا لیا۔

شاہ محمود قریشی نے اس انٹرویو کے آغاز میں ہی یہ جملہ استعمال کردیا کہ ” اسرائیل اپنے کنکشنز کے باوجود میڈیا وار ہار رہا ہے” سی این این کی خاتون اینکر بیانا گولڈریگا اگلے دس منٹ یہ کوشش کر کر کے تھک گئیں کہ شاہ محمود کے اس جملے کو ان سے “یہود دشمنی” منوا کر انہیں اس سے رجوع پر آمادہ کر سکیں مگر آخر تک ناکام رہیں۔

قریشی کے انٹرویو کا یہ کلپ تل ابیب کے اخبار جیوش کرانیکل نے اپنے یوٹیوب چینل پر یہود دشمنی کے ٹائٹل کے ساتھ ہی اپلوڈ کر رکھا ہے۔ مگر اس پر آنے والے ہزاروں کمنٹس میں سے 99 فیصد قریشی کی حمایت اور داد و توصیف پر مبنی ہیں۔

اس انٹرویو میں جب اینکر نے شاہ محمود قریشی سے ان کے مذکورہ جملے کے حوالے سے پوچھا “آپ کا اشارہ کس کی طرف ہے ؟” تو انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا “ان کی طرف جن کی جیبیں بہت گہری ہیں” امریکی میڈیا پر بیٹھ کر اگر پاکستانی وزیر خارجہ اسی میڈیا کو آئینہ دکھا رہا تھا تو اس کے پیچھے بھی سٹیزن جرنلزم کی طاقت کار فرما تھی جس کا شاہ محمود قریشی نے حوالہ بھی دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب شاہ محمود نے اینکر کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دو ٹوک کہا کہ یہ عالمی میڈیا کے بارے میں عام تاثر ہے” تو اینکر نے فوراً کہا “مگر یہ غلط تاثر ہے” اس پر شاہ محمود نے کہا “اس غلط تاثر کو متوازن کوریج کے ذریعے ٹھیک کیا جانا چاہئے” لطف کی بات یہ ہے کہ یوٹیوب پر شاہ محمود کو داد دینے والوں میں بہت سے انڈین شہری بھی شامل ہیں۔

حالیہ جارحیت کے دوران سب سے اہم شکست اسرائیل کو سیاسی محاذ پر ہوئی ہے اور اس کا سب سے بڑا اشارہ یہ ہے کہ امریکی کانگریس کے بہت ہی با اثر ارکان اپنی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل کی فوجی امداد روکی جائے کیونکہ یہ ملک اس امداد کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لئے استعمال کر رہا ہے۔

سینیٹر برنی سینڈر نے اس حوالے سے بل بھی پیش کیا ہے تقریر بھی غیر معمولی کی ہے۔ مشرق وسطی کی سیاست کا گہرا مشاہدہ رکھنے والے عالمی تجزیہ کار ماضی کے برخلاف اسرائیل کو جلد جنگ بندی پر مجبور کرنے کے اقدام کو امریکی پالیسی میں اہم تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

امریکہ کے سینئر تجزیہ کار خبر دے رہے ہیں کہ صدر جو بائیڈن نے نیتن یاہو سے کہا کہ وہ فوراً جنگ بندی کرے کیونکہ عالمی دباؤ ان کے لئے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے،وہ اسے نظر انداز نہیں کرسکتے۔

اسی طرح ایک اور اہم سیاسی شکست اسرائیل کو اس بار یہ ہوئی ہے کہ مسئلہ فلسطین “مسلمانوں کا مسئلہ” کے بجائے انسانی مسئلہ بن گیا ہے۔

اس بار عالمی رائے عامہ نے اسے مسلمانوں کے کیس کے طور پر نہیں لیا۔ چنانچہ ہر مذہب اور رنگ و نسل کے لوگوں نے اس کے حق میں آواز بلند کی۔

یہ مسئلہ جب تک صرف مسلمانوں کا مسئلہ تھا اسرائیل کے لئے مغرب کی سیاسی ہمدردیاں سمیٹنا بہت آسان رہا لیکن انسانی مسئلہ بننے کے نتیجے میں اب فلسطینیوں کی سپورٹ تو بے اندازہ بڑھ گئی ہے لیکن اسرائیل کو خسارے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔

یہ دباؤ اپنے اثرات آنے والے دنوں میں مزید بھی دکھائے گا۔ آخری مگر بجائے خود ایک اہم شکست اسرائیل کو یہ ہوئی ہے کہ جب بھی اسرائیلی مظالم پر تنقید ہوتی تو اسرائیل اسے “یہود دشمنی” کا رنگ دیدیتا۔

یہی حرکت اس کا حامی مغربی میڈیا بھی کرتا آیا ہے جس کی تازہ مثال شاہ محمود کے سی این این والے انٹرویو کی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔

مگر اس بار خود امریکی یہودیوں نے بھی سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹیں کی ہیں جن میں کہا گیا کہ اسرائیل پر تنقید کو یہودیت دشمنی کا رنگ دینا بالکل غلط ہے۔

یہودیت الگ چیز ہے اور اسرائیل الگ۔ اسرائیل ایک ملک ہے جس پر تنقید کا مطلب یہودیت پر تنقید نہیں ہے۔ اور یہ بحث اب سوشل میڈیا سے مین سٹریم میڈیا پر بھی منتقل ہوگئی ہے، جہاں یہی رائے زور و شور کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے۔

پچھلے دس پندرہ دن کے اس عالمی منظر نامے سے اس بات کا واضح اشارہ مل رہا ہے کہ اسرائیل کے لئے آنے والے دن مشکلات میں اضافے کے دن ثابت ہوتے جائیں گے۔

اسے اب فلسطین کے حوالے سے ایک ایسی عالمی سیاسی مزاحمت کا سامنا رہے گا جس کے ہوتے اس کے لئے اپنا سابقہ رویہ برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ اور کوئی شبہ نہیں کہ اس کے اثرات کشمیر تک بھی آئیں گے۔

یوں ایک بظاہر محدود سی لڑائی میں ہونے والی یہ شکست ایک غیر معمولی شکست ثابت ہوگی۔ ایک ایسی شکست جس کے اثرات دور رس ہوں گے۔

Related Posts