سانحہ سیالکوٹ: ان نتائج پر کسی نے غور کیا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Preliminary report confirms purpose of attacking Priyantha Kumara was revenge

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سیالکوٹ میں جنونی ہجوم نے غیر مسلم سری لنکن فیکٹری مینیجر کو جس درندگی سے ہلاک کیا، وہ دل دہلا دینے والا ہے۔ اس ظلم کا کوئی دفاع، تاویل اور دلیل موجود نہیں۔ یہ ایک ایسا فعل ہے جس نے دنیا بھر میں اسلام، مسلمانوں اور پاکستانیوں کے امیج کو سخت نقصان پہنچایا، بہت بدنام کیا۔ اسلام دشمن لابیاں اس واقعے اور مقتول کی جلی ہوئی لاش کی ویڈیو کو کس طرح اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال کریں گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

اس واقعے کے کئی پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ توہین مذہب کے کسی بھی واقعے میں مجرم کا فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے۔ یہ شرعی، قانونی اور اخلاقی پوزیشن ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی گروہ یا ہجوم کسی شخص پر کوئی الزام عائد کر کے خود ہی اس کی تحقیق اور خود ہی اس کی سزا سنا کر عمل درآمد نہیں کر سکتا۔ یہ صریحاً جنونیت اور درندگی ہے۔ ملزم کو عدالت کے حوالے کرنا چاہیے، وہاں شفاف انداز میں غیر جانبدارانہ سماعت کے بعد سزا سنائی جائے۔

اس واقعے کو جس طرح رپورٹ کیا گیا، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ معاملہ غلط فہمی پر مبنی تھا اور فیکٹری ملازمین نے کسی دیرینہ رنجش یا وقتی اشتعال میں آ کر یہ سفاکانہ کام کیا۔ اس معاملے کو سنبھالا جا سکتا تھا ، اگر پولیس موقعہ پر پہنچتی یا مقامی سطح پر ہجوم کو کنٹرول کر لیا جاتا۔ جن لوگوں نے ایسا کیا، انہوں نے فخریہ اپنی ویڈیوز بنائیں اور موقعہ پر پہنچنے والے بعض کیمرہ مینوں کو تفصیلات بتائیں۔ ان کی گفتگو ان کے دین سے نابلد ہونے اور نہایت جہالت آمیزفہم کی عکاس تھی۔

جس طرح لوگوں نے جلتی ہوئی لاش کی ویڈیوز بنائیں اور سینکڑوں لوگ مزے لے کر یہ ماجرا دیکھتے رہے، اس سے عوام کی بڑی خوفناک نفسیاتی تصویر سامنے آئی۔ حساس شخص کسی جانور کی جلتی ہوئی لاش بھی نہیں دیکھ سکتا، کجا یہ کہ جلتے انسان کو دیکھے۔ انسانی گوشت جلنے کی بو بھی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔کلپس سے ظاہر ہے کہ پریشان ، دل گرفتہ یا وحشت طاری ہونے کے بجائے سینکڑوں لوگوں پر کمال درجے کا سکون قلب غالب تھا۔کہیں نہیں لگ رہا تھا کہ لوگ اس خوفناک منظر سے گھبرا رہے ہیں بلکہ وہ اچک اچک کر پوری جزئیات سے سب کچھ دیکھنا چاہ رہے تھے۔ اس اعتبار سے یہ سماجی، نفسیاتی سٹڈی کا کیس بھی ہے۔

سیالکوٹ کے اس سانحے میں سوال یہ بھی پیدا ہوا کہ عوامی رویوں میں اس قدر شدت، عدم برداشت اور فرسٹریشن کیوں ا ٓگئی ہے؟لوگ صورتحال کو ہمیشہ ایک خاص منفی اور انتہائی زاویے سے دیکھنے پر کیوں اصرار کرتے ہیں؟ وہ ملزم کو صفائی کا موقعہ نہیں دینا چاہتے،کسی قسم کا حسن ظن نہیں رکھتے اور انتہائی شدت والا ردعمل ہی دیتے ہیں، آخر کیوں؟ کیا اس لئے کہ عمومی طور پر رویوںمیں بے پناہ غصہ اور کڑواہٹ آ گئی ہے یا صرف مذہبی حوالے سے ایسی شدت ہے؟ کیا اس لئے کہ ایک خاص مذہبی حلقہ یا گروہ ان باتوںمیں بہت سخت ، بے لچک اور نہایت عدم برداشت کا رویہ اپنانے کی تلقین کرتا ہے؟

ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ مذہبی حلقوں نے فوری طور پر اس کی مذمت کی۔ مولانا طارق جمیل نے ایک سخت بیان جاری کیا۔ موقعہ واردات کے بعد جس تنظیم کے نعرے لگائے گئے، اس تنظیم نے بھی سخت اور واضح الفاظ میں اس واقعہ کی مذمت کی، ملزموں سے فاصلہ کیا اور یہ اعلان کیا ہے کہ ناموس رسالت ﷺ کا ذاتی مقاصد کے لئے استعمال گناہ کبیرہ ہے۔ مذہبی حلقوں کی جانب سے ایسا دو ٹوک موقف مستحسن ہے ۔

ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ناموس رسالت ﷺکے حوالے سے مقدمات کو تیزی سے نہیں نمٹایا جاتا اور یہ تاثر عام ہے کہ حکومتیں عالمی دباﺅ کے پیش نظر عام طور پر ایسے کیسز کے جلد فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کی حوصلہ افزائی نہیں کرتیں۔ اس حوالے سے بہتری لانی چاہیے۔ ان کیسز کو سپیڈی ٹرائل کے ذریعے مکمل کیا جائے، جو بے گناہ ہوں انہیں رہا اورمجرموںکو سزائیں سنائی جائیں، پھر ان سزاﺅں پرعمل درآمد بھی کیا جائے۔ اس سے یہ اعتماد مستحکم ہوگا کہ اگر ملزم کو عدالت کے حوالے کیا جائے تو وہاں انصاف ہوگا اورجرم ثابت ہوجانے پر مجرم جلد کیفر کردار تک پہنچ جائے گا۔ حکومت اس معاملے میں قانون سازی بھی کر سکتی ہے۔

آخری تجزیے میں یہ بات طے ہے کہ جس سفاکی اور وحشت کے ساتھ غیر مسلم سری لنکن فیکٹری مینیجر کو قتل کیا گیا وہ انتہائی درجے میں قابل مذمت اور نہایت افسوسناک اقدام ہے۔ قاتلوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ اس واقعے کی مختلف ویڈیوز موجود ہیں جن میں ملزم خود اعتراف کر رہے ہیں۔ انہیں گرفتار کر کے فوری سزائیں دی جائیں۔جو گروہ یا تنظیم ان کی سہولت کار بنے یا اگر،مگر چونکہ چناچہ کہہ کر ان کی تاویل اور دفاع کرے تو ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ جب تک ایسے شدت پسندوں کو علیحدہ اور تنہا نہیں کیا جاتا ، تب تک سماج کو پرامن کرناممکن نہیں۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر اس کیس کا نوٹس لیا گیا اور ایکشن شروع ہوگیا ہے۔ توقع ہے کہ اعلیٰ عدالتیں بھی اس بہیمانہ فعل کا نوٹس لے کرشفاف اور تیز رفتار انصاف کو یقینی بنائیں گی۔

حرف آخر یہ کہ اس سانحے کے ملزمان کو پکڑنا اور سزا دلوانا کافی نہیں، حکومت ، اداروں اور ماہرین کو یہ سوچنا ہوگا کہ ایسے واقعات کو کس طرح رونما ہونے سے روکا جائے۔ زندہ قومیں صرف آگ بجھانے کا کام نہیں کرتیں بلکہ وہ ایسے انتظامات کرتی ہیں کہ آگ ہی نہ لگے اور نقصان ہونے سے بچا جا سکے۔

Related Posts