قتل، حرمت انسان اور اسلام

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 اسلام ایک پرامن مذہب ہے جس کے دامن عافیت میں عالم انسانیت کے تمام مذہب اور اقوام نے چین وسکھ کا سانس لیا، تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ظہور اسلام سے پہلے مذہب اور اعتقاد کا اختلاف فسادات ، قتل وخونریزی کا سب سے بڑا سبب تھا۔

دنیا کے ہر قبیلے اور قوم نے حصول اقتدار کے بعد دوسرے مذہب کے پیروکاروں کا بے دریغ قتل عام کیا، اپنے مذہب کے ماسوا کسی مذہب کو برداشت نہیں کیا بلکہ دوسرے کے شہریوں کو زندگی اور معیشت تک کے حقوق سے محروم کردیا۔

اس کے برعکس اسلام نے مذہبی رواداری اور انسانی حقوق کی ایسی فضا پیدا کردی جس کی مثال مذاہب عالم پیش کرنے سے قاصر ہے، اسلامی سلطنتوں میں فتح مکہ کے بعد ہر مذہب و ملت کے پیراکار آباد تھے اور انہیں بلاامتیاز ایک ہی طرح کے شہری حقوق حاصل تھے ۔

مذہب و ملت کے اختلاف کی وجہ سے کوئی شہری دوسرے شہری کے حقوق غصب نہیں کرسکتا تھا بلکہ غیرمسلموں کے حوالے سے بہت زیادہ احتیاط کیا کرتے تھے، مسلمان حکمران غیر مسلم شہریوں (ذمیوں) کے حوالے سے کتنی احتیاط کرتے اس کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ امیر المومنین سیدنا ابوبکرصدیق ؓ نے قبل از موت جو وصیت فرمائی اس میں فرمایا ـ” غیر مسلموں کے حقوق کا خیال رکھنا کیونکہ ہم نے ان کا ذمہ لیا ہے”۔

اسلام نے دنیا کے سامنے یہ تصور پیش کیا ہے کہ ” ایک غیر مسلم ذمی کا خون بھی ویسا ہی محترم ہے جیسا مسلمانوں کا خون اور اس کا خون بہابھی ویسا ہی ہے جیسا مسلمان کا” یہ صرف زبانی کلامی باتیں نہیں تھیں اور ناہی صرف کاغذوں میں لکھے ہوئی سطور تھیں بلکہ مسلمان حکمرانوں نے ان سنہری اصولوں کو اسلامی عدالتوں کے ذریعے نافذ عمل کرکے اسلامی آئینی تاریخ کومنور کردیا، خلیفۃ المسلمین سیدنا حضرت عمر فاروقؓ، سیدنا عثمان ذولنورینؓ ،سیدنا علی المرتضیٰؓ ایسے مسلمانوں کو قتل کا کرنے کا حکم صادر فرمایا جنہوں نے کسی غیر مسلم شہری کوبنا کسی شرعی کے قتل عذرکردیا۔

ایک طرف اسلام کی درخشندہ تعلیم و تاریخ اور دوسری طرف مملکت خداداد پاکستان اپنے وجود کے ابتدائی ایام سے ہی دنیا کے سامنے ایک اسلامی ریاست کے شناخت سے نمایاں  ہے ،اسلام کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو اسلام نے کبھی بھی فسادات کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ فساد پھیلانے والوں کا زبردست محاسبہ کیا ہے قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالی کا واضح پیغام موجود ہے “اللہ تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں کرتے ” (سورۃ القصص )اور دوسری جگہ فرماتے ہیں ” اصلاح کے بعد زمین میں فسادبرپا مت کرو” (سورۃالاعراف) اس کے باوجود ہمارے ملک میں مذہبی جنونیت اور مذہب کے نام پر فسادات عروج پر ہے ۔

گزشتہ دنوں میں یکے بعد دیگرے کئی جگرخراش واقعات رونما ہوئے جس نے ہرذی ہوش مسلمان کی روح تک کو زخمی کردیا ہے،یقیناً اس قسم کی جنونیت پر مبنی سانحات کا تصور اسلامی ریاست میں ممکن نہیں ہے ۔سانحہ سیالکوٹ بھی اسی جنونیت کی ایک کڑی ہے جہاں ایک غیر مسلم و غیر ملکی شہری کو محض الزامات اور شک کی بنیادوں پر چند شرپسند عناصراور عقل شعور سے عاری عوام نے پر تشدد کرکے مار مار کے قتل کردیا اور پھر ان شرپسند لوگوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس انسانیت سوز سانحہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی ۔

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا اسلام جیسا پرامن مذہب اس قسم کی بربریت اور دہشت گردی کی اجازت دیتا ہے ،کیا اسلام کا کوئی عدالتی نظام نہیں ہے ،کیا اسلام یہ اجازت دیتا ہے کہ عوام الناس خود ہی فیصلہ کریں اور خود ہی سزا بھی نافذکریں، ایسا ہرگز نہیں۔

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اسلام میں ایک مضبوط و مربوط آزاد اور خودمختار عدالتی نظام ہے جسکا اہم ترین ستون انصاف اور صرف انصاف ہے جہاں گواہوں اور دلیلوں کی بنیاد پر فیصلے کو یقینی بنایا جاتا ہے، (یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت پر مبنی ہے کہ ملک خدا داد کی موجودہ عدالتیں فوری فیصلے کرنے سے قاصر ہیں پر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم قانون کو ہاتھ میں لیکر زمین میں فساد برپاکرنے لگ جائیں) ہمارے ملک میں مذہب اسلام کی درخشندہ تعلیم ، اسلام کا پیغام امن، اسلام کی دعوت کا بنیادی سبق ایثار و ہمدردی اور تعلیمات نبویﷺ اخلاق و محبت ہے۔

ایک دیہاتی مسجد نبوی ﷺ کے ایک گوشے میں قضائے حاجت کرنے لگا مسجد میں موجود لوگوں نے ہنگامہ برپا کردیا اور اس دیہاتی کو برا بھلا کہنے لگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرامؓ کو خاموش کیا حتیٰ کہ جب تک فارغ نہیں ہوگیا، بعدازاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرامؓ کو پانی چھڑک کر صاف کرنے کا حکم دیا اور دیہاتی کوبلاکر نہایت نرم لہجہ میں فرمایا: مسجد پیشاب کرنے کی جگہ نہیں ہے مسجد میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے نماز پڑھی جاتی ہے ، وہ دیہاتی اعرابی آپﷺ کے اخلاق سے بے حد متاثر ہوا اور کہنے لگا ” میرے ماں باپ آپ پر قربان آپﷺ نے مجھے ڈانٹا اور نہ ہی برا بھلا کہا(سنن ابن ماجہ)۔

وہ مجسمہ رحمت ﷺجو قاتل کودرگزر فرمائے ، جس کے سایہ رحمت سے وحشی جیسا حبشی قاتل سے صحابی رسول کا لقب پائے اس نبیﷺ کے امتی سیالکوٹ کی سرزمین پر ایک نہتے شہری کو محض  الزامات کی بنیاد پر مذہبی جنونیت کے آڑ پر دکھاوے کے نعرے بلند کرکے سڑکوں پرگھسیٹ کے قتل کردیں، کیا یہ جنونیت پر مبنی نعرے یہ ظلم و بربریت آپ کو دنیا و آخرت کی احتساب بچا سکتے ہیں کیا کبھی زمین میں فساد برپا کرنیوالا سرورکونین رحمت العالمین ﷺ کے آگے سرخرو ہو سکتے ہیں نہیں ہرگز نہیں یقینا ًیہ فعل باعث شرمندگی ہے، بقول علامہ اقبالؒ ” ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ ، شمشیر ہی کیا نعرئہ تکبیر بھی فتنہ”۔

ایک ضروی بات ! اسلام قتل خونریزی کے علاوہ فتنہ انگیزی اور جھوٹی افواہوں کو سخت ناپسند کرتا ہے ،اس کو ایک فساد پر مبنی وحشیانہ عمل قرار دیتا ہے ۔علمائے اکرام بھی غیر انسانی افعال کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے لہٰذاخدارااس قسم کے قبیح فعل کو اسلام یا علماء اکرام سے ناجوڑیں۔

Related Posts