گزشتہ 6سال سے جبری گمشدگی کا شکار شبیر بلوچ کون؟ آج کہاں ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

طالبِ علم رہنما شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو6سال مکمل، حب میں عوام کا احتجاج
طالبِ علم رہنما شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو6سال مکمل، حب میں عوام کا احتجاج

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں جواں سال بلوچ طالبِ علم رہنما شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کیا گیا جبکہ شبیر بلوچ کو گمشدہ ہوئے 6 سال مکمل ہوچکے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق جواں سال شبیر بلوچ کو 4 اکتوبر 2016 کے روز تربت میں گورکوپ کے علاقے سے دیگر 20افراد کے ساتھ حراست میں لیا گیا تھا۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ شبیر بلوچ کو پاکستانی فورسز نے گرفتار کرکے لاپتہ کیا۔

لواحقین کا بیان

لواحقین کے بیان کے مطابق ایک دو ہفتے بعد دیگر تمام افراد کو رہائی مل گئی تاہم شبیر بلوچ کی 6سال بعد بھی کوئی خبر نہیں۔گزشتہ روز شبیر بلوچ کے لواحقین نے لسبیلہ پریس کلب حب کے سامنے احتجاجی ریلی بھی نکالی۔

احتجاجی ریلی میں دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے بھی شرکت کی۔ شرکائے ریلی نے جبری گمشدگی کا شکار اپنے پیاروں کی تصاویر کے ساتھ مرکزی شاہراہ پر مارچ کیا اور حکامِ بالا سے مطالبہ کیا کہ جبری لاپتہ افراد بازیاب کرائے جائیں۔

سیما بلوچ کی گفتگو

احتجاج کے دوران شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے بھائی کی بازیابی کیلئے مسلسل احتجاجی مظاہرے، بھوک ہڑتال اور ریلیاں ہورہی ہیں۔ اسلام آباد اور کوئٹہ میں دھرنے بھی دئیے گئے۔

سیما بلوچ نے کہا کہ متعدد بار ہمیں وزراء اور کمیٹیوں نے یقین دلایا کہ میرے بھائی کو بازیاب کرایا جائے گا، تاہم آج تک شبیر بلوچ کی کوئی خبر نہیں۔ گزشتہ برس عمران خان نے بھی بطور وزیر اعظم ملاقات کرکے ہمیں یقین دلایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم انصاف کے حصول کیلئے تمام ذرائع استعمال کرچکے۔ لگتا ہے ریاست میں ہماری فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی پر انسانی حقوق کے اداروں نے بھی آواز اٹھائی لیکن ریاستی اداروں سے کوئی جواب نہیں مل سکا۔

انصاف کا مطالبہ

گزشتہ روز احتجاجی مظاہرے کے توسط سے میڈیا کو بیان بھی جاری کیا گیا جس میں لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپیل کی کہ شبیر بلوچ کو منظرِ عام پر لایا جائے اور انصاف مہیا کیا جائے۔

لواحقین کا کہنا تھا کہ اگر شبیر بلوچ پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کرکے جرم ثابت کیا جاسکتا ہے اور چاہے اسے اس کے جرم کی سزا بھی دے دی جائے لیکن جبری لاپتہ نہ کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ریاست سے وہی حق مانگ رہے ہیں جو ریاست نے آئین کے تحت ہمیں مہیا کیا۔ کسی ایک بھی فرد کے لاپتہ ہوجانے سے اس کا پورا خاندان اذیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

ستمبر کے دوران بھی لاپتہ افراد کے لواحقین نے گورنر ہاؤس بلوچستان کے سامنے ریڈ زون میں 50 روز تک پر امن دھرنا دیا۔ دھرنا وفاقی کمیٹی کی یقین دہانی پر ختم کیا گیا کہ لاپتہ افراد بازیاب ہوں گے تاہم حکومت نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا۔

Related Posts