نجی ٹی وی پرلندن میں جرمانہ، کیا پاکستان میں بھی میڈیا سے جواب طلبی ممکن ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نجی ٹی وی پرلندن میں جرمانہ، کیا پاکستان میں بھی میڈیا سے جواب طلبی ممکن ہے؟
نجی ٹی وی پرلندن میں جرمانہ، کیا پاکستان میں بھی میڈیا سے جواب طلبی ممکن ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اے آر وائی ،یوکے کے براڈ کاسٹر نیو ویژن ٹی وی کے حالیہ کیس نے جھوٹے الزامات پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار سے معافی مانگ کر لوگوں کی توجہ حاصل کرلی ہے۔

لندن میں ہتک عزت کا مقدمہ ہارنے کے بعد چینل نے نہ صرف سابق وزیر خزانہ سے معافی مانگی بلکہ جرمانہ ادا کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔ اس کیس نے پاکستانی میڈیا کے لیے بھی اسی اصول کے نفاذ کے بارے میں کئی سوالات اٹھائے ہیں کیونکہ پاکستان میں کسی بھی شخص کی ذات پر بہتان لگانا ایک معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔

واقعے کا پس منظر
ٹی وی چینلز کے الزامات اور ہتک عزت کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے لندن ہائی کورٹ میں نجی چینل اے آر وائی نیوز کے خلاف اپنا ہتک عزت کا مقدمہ جیتا، انہوں نے اے آر وائی پر مقدمہ دائر کیا تھا جو برطانیہ اور یورپ میں این وی ٹی وی براڈکاسٹر کے تحت کام کرتی ہے۔

اے آر وائی کے اینکرز اور وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ ، بدعنوانی ، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے ناجائز کنٹرول اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

جھوٹے الزامات
سال 2019 میں اے آر وائی کے اینکرز چوہدری غلام حسین اور صابر شاکر نے 8 جولائی کو اسحاق ڈار کے خلاف الزامات لگائے تھے اور شہزاد اکبر نے دو سال قبل 8 اگست کو اسحاق ڈار کے خلاف ریمارکس جاری کیے تھے جس کے نتیجے میں سابق وزیر خزانہ نے ان کے خلاف لندن ہائی کورٹ میں قانونی کارروائی کی تھی۔

اسحاق ڈار کادعویٰ
لندن ہائی کورٹ میں کیس دائر کرتے وقت اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ ان دونوں پروگراموں میں لگائے گئے الزامات کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہوں  نے پاکستانی حکومت کے پیسے چوری کیے ہیں اور اگر پاکستان واپس جانے کی اجازت ہو تو وہ پیسے واپس کرنے کے لیے تیار ہیں۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ میرے بینک کھاتوں کا سراغ لگا لیا گیا ہے اور اس میں ایک ارب ڈالر کی چوری شدہ رقم موجود ہے اور مجھ پر الزام ہے کہ میں نے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی ہیں اور یہ کہ میں فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) اور دیگر اہم اداروں کو کام کرنے سے روکنے کا ذمہ دار ہوں، بشمول ان لوگوں کوجو دھوکہ دہی سے چوہدری شوگر ملز منی لانڈرنگ کیس میں غیر قانونی اقدامات کو تحفظ فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ پروگرامز میں جو الزامات لگائے گئے وہ انتہائی ہتک آمیز تھے بلکہ انھیں مجرمانہ قرار دیا گیا ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ان الزامات نے ان کی سیاسی ساکھ کو سنگین نقصان پہنچایا ہے اور انہیں شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

حاصل شدہ رقم
یہ واضح نہیں ہے کہ اسحاق ڈار نے 2 لاکھ پاؤنڈ میں سے کتنی رقم حاصل کی ہے تاہم غیر مصدقہ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے جتنی رقم حاصل کی ہے وہ ان کے وکلاء کے قانونی اخراجات کے علاوہ ایک لاکھ پاؤنڈ کے لگ بھگ ہے۔

پاکستانی میڈیا اور جھوٹے دعوے
جعلی دعووں اور الزامات کے رجحان کو عام طور پر پروپیگنڈا کی شکل میں سیاسی اور معاشی فوائد کے لیے غلط معلومات پھیلانے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ہمارے سیاستدان اکثر بے بنیاد الزامات لگانے میں ملوث پائے جاتے ہیں حتیٰ کہ جھوٹی خبروں کی شہ سرخیاں بھی بنائی جاتی ہیں ۔

35 پنکچرز کی کہانی
014 میں عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ پنجاب کے سابق نگراں وزیراعلیٰ نجم سیٹھی نے نواز شریف کو الیکشن کی رات فون کیا تھا اور انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ 35 پنکچر لگ گئے ہیں ، مبینہ طور پر انتخابی دھاندلی کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پنکچرز کا مطلب پنجاب کے 35 حلقوں میں دھاندلی تھا۔

ریحام خان اور زلفی بخاری کا تنازعہ
وزیراعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے حال ہی میں وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی ذوالفقار بخاری سے برطانیہ میں ہتک عزت کا مقدمہ ہارنے کے بعد معافی مانگ لی ہے۔ انہوں نے دسمبر 2019 میں اپنے یوٹیوب چینل پرمین ہٹن میں روزویلٹ ہوٹل کی فروخت کے حوالے سے زلفی بخاری پر الزامات عائد کئے تھے۔
زلفی بخاری سے مقدمہ ہارنے کے بعد ریحام خان نے نہ صرف باضابطہ طور پر معافی مانگی بلکہ ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے سابق معاونِ خصوصی کو50ہزار پاؤنڈ کی رقم ادا کرنے پر بھی رضامند ہیں۔

میڈیا کے احتساب کی ضرورت
غیر جانبدارانہ طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے پاکستانی میڈیا ہمیشہ ایک سیاسی حریف بننے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ہمارے میڈیا میں حقائق سے زیادہ لغو اور بے بنیاد چیزوں پر توجہ دی جاتی اور اکثر ٹاک شوز انتہائی نامناسب موضوعات اور بحث ومباحثے میں قوم کا وقت ضائع کرتے ہیں۔
میڈیا کی جانب سے اخلاقیات کی خلاف ورزی میں سیاستدان سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہلے ایسی اہم سیاسی شخصیات الزامات لگاتی اور بڑے دعوے کرتی ہیں جو مستقبل میں ہمیشہ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں اور پھر بالآخر وہ بغیر کسی قانونی کارروائی یا جرمانے کا سامنا کیے ،دوبارہ میڈیا پر بے بنیاد الزامات عائد کرتے دکھائی دیتے ہیں تاہم اگر پاکستان میں بھی میڈیا کا احتساب اور جھوٹے الزامات لگانے والوں کا محاسبہ کیا جائے تو شائد پاکستان میں بھی جھوٹ کی سیاست سے کسی حد تک چھٹکارا پانا ممکن ہے۔

Related Posts