ایک نیم مذہبی، نیم سیاسی ولیمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملک میں انتخابی گہما گہمی شدت پکڑتی جا رہی ہے۔ ایسے موسم میں سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ چھوڑیئے، عام ورکر بھی بیحد مصروف ہوتا ہے۔ کسی کے پاس بھی انتخابی ایجنڈے کے سوا کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا۔

ایسے میں ملک کے اکلوتے “زیرک” سیاستدان مولانا فضل الرحمٰن کو خدا جانے کیا سوجھی کہ اپنے برخوردار کی شادی رکھ لی۔ اب یہ وہ دن ہیں جب بڑی پارٹیاں چھوٹی پارٹیوں سے یہ سوچ کر کنی کتراتی ہیں کہ یہ کہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ مانگ لیں۔ ایسا نہ بھی ہو تو انتخابی مہم کے دوران سیاستدانوں کے پاس کسی اور سرگرمی کے لئے وقت ہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ مولانا کے برخوردار کے ولیمے میں نون کی قیادت شریک نہ ہوئی۔

اگر غور کیجئے تو شادی سیاسی نہیں سماجی تقریب ہوتی ہے۔ اس کا دعوت نامہ کسی گول میز کانفرنس کا نہیں بس بچے کی شادی کا، ولیمے میں شرکت کا دعوت نامہ ہوتا ہے۔ اور سماجی و نجی زندگی سیاست سے اس حد تک الگ ہوتی ہے کہ کئی سیاستدانوں نے اپنے بچے یا بچی کی شادی مخالف پارٹی کے رہنماء کے صاحبزادے یا صاحبزادی سے کر رکھی ہے۔ اور یہ رشتے خوشگوار طور پر نبھ بھی رہے ہیں۔ جس میں ظاہر ہے اہم کردار اس بات کا ہے کہ سیاستدان اپنی نجی زندگی پر سیاسی زندگی کو اثر انداز نہیں ہونے دیتا۔ چنانچہ بالعموم یہ تو دیکھا گیا ہے کہ کسی سیاستدان کے ولیمے میں کسی خاص لیڈر نے شرکت نہ کی ہو تو میڈیا میں اس پر سرسری سی بات ہوئی لیکن سیاسی جماعتوں نے کبھی اسے ایشو نہیں بنایا۔ یہ تماشہ ہمیں پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ جے یو آئی نے ولیمے میں شرکت نہ کرنے کے جرم کی پاداش میں اپنے سوشل میڈیا ورکرز سے نون لیگ کی قیادت پر حملہ کروا دیا۔ اور اس میں سب سے “سلجھی” زبان استعمال بھی انہوں نے استعمال کی جنہیں یہ زعم لاحق ہے کہ وہ “ادبیات” سے نسبت رکھتے ہیں۔ ولیمے جیسی غیر سیاسی تقریب سیاسی کب سے ہوئی؟ اس سوال کا جواب پانے کے لئے کسی ادیب کی قبر پر مراقبہ ہی کرلیا ہوتا، ممکن ہے جواب مل جاتا۔ اور پھر دنیا کی کونسی تہذیب ہے جہاں یہ کلچر پایا جاتا ہو کہ ولیمے میں شرکت نہ کرنے والے کو مغلظات کی باڑھ پر رکھ لیا جائے؟ اس پوری صورتحال میں ہمیں دو واقعات یاد آئے۔

ایک یہ کہ ایک روز ہم نے نون لیگ کے خلاف کوئی ٹویٹ کی تو اس پر جے یو آئی کا ایک نیم چڑھا کریلا ہم سے الجھ گیا۔ ہماری ٹویٹ میں ہم نے بالخصوص نون لیگ کے لبرل حلقے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اور آپ تماشا دیکھئے کہ الجھ اس پر ہم سے ایک مولوی رہا تھا۔ یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب پی ڈی ایم نئی نئی سرگرم ہوئی تھی اور جے یو آئی والوں کو لگتا تھا کہ سارے سیاستدانوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے اور یہ گویا اب حضرت مولانا کی رعایا ہیں۔ جے یو آئی کے اس ڈیڑھ شانڑے سے مولوی کو جواب دیتے ہوئے ہم نے عرض کیا تھا کہ “اپنی حد میں رہئے ورنہ وہ دن آپ کے لئے بڑے تکلیف دہ بن جائیں گے جب بڑی جماعتوں کا مقصد پورا ہوتے ہی یہ آنکھیں پھیریں گی۔ جو پٹواری لبرل آج کل آپ کے لیڈر کو “حضرت مولا نا فضل الرحمٰن” کہہ رہے ہیں یہی نئی صورتحال میں انہیں “ملا فضل الرحمٰن ” کہتے نظر آئیں گے”۔ ہمارا یہ اشارہ وجاہت مسعود کی جانب تھا۔ اور ہم شکر گزار ہیں کہ وجاہت نے مایوس بالکل نہ کیا۔ ہماری پیشنگوئی پوری کرکے دکھائی۔ آپ کارکن چھوڑیئے، خود حضرت مولانا کو ہی لے لیجئے۔ پی ڈی ایم حکومت والے ایام میں ایک روز سینیٹر افنان اللہ خان نے ٹویٹ کرتے ہوئے مہنگائی اور خراب معاشی صورتحال کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دیا۔

اس پر ہم نے سخت ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ عمران خان جا چکے۔ اب ایک سال سے آپ مسلط ہیں۔ آپ ہمیں اپنی کارکردگی بتایئے۔ آپ عمران خان کا حوالہ دے کر اپنی نالائقی نہیں چھپا سکتے۔ جانتے ہیں ہماری اس جوابی ٹویٹ کا ردعمل کیا آیا ؟ سینیٹر افنان اللہ خان کی بجائے حضرت مولانا ہم سے ناراض ہوکر بات چیت بند کرگئے۔ ہمیں کونسا ان سے میمن سیٹھوں کی طرح فائلیں دستخط کروانی ہوتی ہیں جو ٹینشن لیتے؟ سو بات چیت کی بحالی کا امکان بھی ختم کرنے کے لئے واٹس ایپ پر بلاک کرکے قصہ ہی مکا دیا۔ ایک نون لیگی سینیٹر کی کلاس لینے پر حضرت زیرک پلس کے بگڑنے کی کوئی تک بنتی ہے؟  قطعاً نہیں۔ تو پھر وہ کیوں بگڑے؟ کیونکہ ان کا تصور یہ تھا کہ وہ پی ڈی ایم کے سربراہ کی حیثیت سے پاکستان کے امیر المؤمنین ہیں۔ لہٰذا اس امارت اسلامیہ کے کسی پٹواری پر تنقید بھی حضرت امیر المؤمنین پر ہی تنقید تھی۔ حالانکہ اس حکومت میں حضرت مولانا کا حصہ چھٹانک بھر بھی نہ تھا۔ ان کے خوش فہم ورکر بے شک اس نشے میں رہیں کہ حضرت مولانا جہاں کھڑے ہوجائیں، قطار وہیں سے شروع ہوتی ہے۔ مگر حقیقت تو یہی ہے ناں کہ حضرت کی قطار کی کل طوالت 11 نفوس پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور اتنی سی قطار پر بس دو ہی وزارتیں کھری کی جاسکتی ہیں۔ ایک اپنے برخوردار کے لئے اور دوسری اپنے سب سے بڑے “ڈونر” کے لئے۔

سیاسی شعور کیا ہوتا ہے، اس کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ نون لیگ کا حامی ہونے کے باوجود ہم شہباز حکومت کے شدید ناقد رہے۔ اور جب ہم ان پر خالص سیاسی تنقید کر رہے تھے تو جے یو آئی کا ورکر ہی نہیں، قائد بھی ہم سے ناراض ہوا۔ لیکن اسی نواز شریف اور شہباز شریف کو اب یہ جماعت محض اس بات پر دشنام کا نشانہ بنا رہی ہے کہ ولیمے میں شریک کیوں نہ ہوئے؟ گویا ان کی سیاست والے سکرو تو ڈھیلے تھے ہی، حد یہ ہے کہ یہ بنیادی اخلاقیات سے بھی عاری ہیں۔ وہ سیاستدان ابھی سے گالیاں کھانے کی تیاری پکڑ لیں جو اس حالیہ شادی کے نتیجے میں ہونے والے بچے کے ختنے کی تقریب میں شریک نہ ہوں گے۔

Related Posts