کیپٹلزم، دانشور اور عورت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جب کوئی مرد سکن ٹائٹ جینز پہن کر نکل آئے تو دیکھنے والے مرد اس پر خوب ہنستے ہیں اور بالکل جائز ہنستے ہیں۔ لیکن کوئی لڑکی سکن ٹائٹ جینز پہن کر نکل آئے تو وہی مرد یکدم سنجیدہ ہوجاتے ہیں اور ایک بے اختیار ایک بڑا سا “واؤؤؤؤؤ” بھی پکار اٹھتے ہیں۔ ہمارے زمانے کی نہایت ذہین عورت سمجھ ہی نہیں پاتی کہ جو چیز مرد مرد کے لئے سخت ناپسند کر رہا تھا، وہی اس کے لئے یکایک پسند کیوں کرنے لگا ؟ کیا لباس کے معاملے میں مرد کے اس دوغلے پن کو سمجھنے کے لئے ارسطو جتنے دماغ کی ضرورت ہے ؟

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کیپٹلزم ایک استحصالی اژدھا ہے۔ یہ اژدھا جانتا ہے کہ مرد چیزیں ضرورت کے تحت خریدتا ہے اور عورت خواہش کے تحت۔ چنانچہ اسی سے فائدہ اٹھانے کے لئے عورت دنیا بھر میں اس کا خصوصی ہدف ہے۔ شوبز کی دنیا کے پیچھے کیپٹلزم کے فیکٹری مالکان بنفس نفیس کھڑے ہیں۔ وہ ڈراموں اور فلموں کے ذریعے مرد کو تو صرف ایکشن اور سٹوری سے متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن عورت کے سامنے وہ فیشن کا چارہ ڈالتے ہیں۔ جس شام شکنتلا کو طلاق ہوئی ہوتی ہے وہ ڈرامے کے سین میں اس رات بھی شکنتلا کو برانڈڈ کپڑوں اور تین کلو زیور سمیت سلاتے ہیں۔ دیکھتی عورت یہ نہیں سوچتی کہ شکنتلا زیور اور شاندار ساڑھی میں کیوں سو ئی؟ بھلا ایسا بھی کوئی کرتا ہے ؟ وہ تو بس یہ سوچ رہی ہوتی ہے کہ جو شکنتلا پہن کر سوئی ہے اسے پہن کر نکلنے کے لئے رقم کتنی درکار ہوگی اور اپنے میاں سے نکلواؤں گی کیسے ؟

ہمارا کہا چھوڑئے، خود گوگل کیجئے اور یہ اعداد و شمار نکالئے کہ گارمنٹس اور کاسمیٹکس انڈسٹری ایک سال میں دنیا بھر کے مردوں سے کتنا کماتی ہے اور عورت سے کتنا لوٹتی ہے ؟ آپ کے ہوش پراں نہ ہوگئے تو ہمارا گریبان حاضر ہے۔ ہر کلچر شو کے سپانسر صنعتکار ہیں کہ نہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ صرف شعر و شاعری اور ادب کی بات کرنے ولا شاعر و ادیب جون ایلیا کی طرح اورنگی ٹاؤن میں مرتا ہے اور ہر وہ ادیب و شاعر ڈیفنس یا کسی اور پوش علاقے میں میں رہتا ہے جو کیپٹلسٹ کلچر کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالتا ہے اور مارننگ شوز میں آکر اس کے حق میں بات کرتا ہے ؟




ہمارے لئے یہ حقیقت اسی درجے کا سچ ہے جس درجے کا سچ گزرے دن کا سورج تھا یا اس چھاتی کا رات کا یہ چاند ہے کہ عہد جدید میں کلچر کے نمائندے سب کے سب صنعتکاروں کے سہولت کار ہیں۔ چاہے یہ شاعروں کی صف کے ہوں یا ادیبوں کی قطار سے۔ ان سب کا مقصد آپ کی جیبیں اور تجوریاں خالی کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ آپ ان کے سپانسر تلاش کر لیجئے، حقیقت خود عیاں ہوجائے گی۔ یہ مذہب کو اس لئے نشانہ نہیں بناتےکہ مذہب انسانی عقل کو خدا نخواستہ زنگ لگاتا ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ مذہب متوازن زندگی کی تلقین کرتا ہے۔ انسان متوازن زندگی گزارے گا تو بازار کیسے چلے گا ؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا کا ہر مذہب ڈھکنے کی بات کرتا ہے۔ جبکہ ڈھکنا بکنے کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ہی اس کے سدباب کے لئے “دانشور” کھڑا کردیا ہے۔ وہ دانشور جسے ٹی وی پر بھیجتے ہوئے وہ پروڈیوسر کو حکم دیتے ہیں کہ اس کے مقابل کوئی بیوقوف سا مولوی لاکر بٹھاؤ تاکہ دنیا دیکھ سکے کہ مولوی ناک آؤٹ ہوگیا۔ اور اس ناک آؤٹ کے نتیجے میں ہمارے مال کی بکری بڑھ سکے۔

آپ ہیوی ویٹ کا مقابلہ لائٹ ویٹ سے کرا کر کب تک جیتوگے ؟ کب تک ان مصنوعی دانشوروں کی مدد سے عورت کو بیوقوف بناؤگے ؟ اور کب تک لوٹوگے ؟ اس کا پرس خالی کرانے کے لئے اسے کب تک یہ فریب دیتے رہوگے کہ “تم آج کی باشعور اور خود مختارعورت ہو ” ؟۔ آپ کا دانشور عورت کو پہلے پیار، پھر شادی اور آخر میں جلد طلاق کی راہ کیوں دکھلاتا ہے ؟۔ سلور سکرین پر کیپٹلزم لڑکا لڑکی دونوں کا ہمدرد بن کر “لوسٹوری” کا پروموٹر بن جاتا ہے اور سماج کو ان دونوں کا دشمن بنا کر پیش کرتا ہے۔ اور وہاں کلائمکس یہ رکھا جاتا ہے کہ دونوں کا شادی کی صورت ملن ہوگیا، آؤ سب تالیاں پیٹیں۔ لیکن یہی کیپٹلزم ٹی وی سکرین پر اسی لڑکی کو یہ سبق دیتا ہے کہ یہ جس سے تم نے پیار کیا ہے یہ تو ایک “مرد” ہے اور مرد تو بہت خبیث ہوتا ہے تم اس سے طلاق لو۔ کیا یہ بات سمجھنا بہت ہی مشکل ہے کہ سینماء سکرین پر دنیا کی ہر لڑکی کو تلقین یہ تھی کہ پیار پانے کے لئے سماج سے بغاوت کردو۔ اور ٹی وی سکرین پر تلقین یہ ہو رہی ہے اب طلاق لے کر سماج سے بغاوت کردو ؟ اور سکرپٹ “رائٹر” دونوں جگہ ایک ہی ہے۔




سوال یہ ہے کہ آپ اس معصوم کو طلاق دلوانا ہی کیوں چاہتے ہیں ؟ صرف اس لئے ناں کہ یہ مرد کے ساتھ ہو تو وہ تو خرچے میں میانہ روی کی تلقین کرتا ہے ؟ صرف اس لئے ناں کہ تنہا عورت کاکریڈٹ کارڈ خالی کرانا آسان ہوتا ہے ؟ کیپٹلزم وہ سفاک مخلوق ہے جو اپنی تجوری بھرنے کے لئے عورت جوان ہو تو اسے اعضاء کا شوکیس بنا کر اس کی شخصیت تباہ کرتا ہے۔ اور وہ لڑکی یہ سوچتی ہی نہیں کہ آخر کار بیچنے کے لئے اسے نیم عریاں کرکے کار کے ساتھ کیوں کھڑا کیا جا رہا ہے ؟ اس کی لاجک کیا ہے ؟یہی لڑکی شادی کرلے تو یہ وہاں بھی اس کی جان نہیں چھوڑتا، اب کیپٹلزم اپنے دلال دانشوروں کے ذریعے اس کا گھر تباہ کرنے کے درپے ہوجاتا ہے۔ اور یہ لڑکی سوچتی ہی نہیں کہ یہ دانشور مرد ہوکر اسے مرد ہی کے خلاف کیوں اکسا رہا ہے ؟۔ کیپٹلزم سوچتا ہے اس کا گھر تباہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مرد طلاق کے بعد بھی باسانی دوسری شادی کرلے گا ، گھر بسا لے گا۔لیکن اس مطلقہ کو طلاق کے بعد تنہا زندگی گزارنی ہوگی، سو ہم اسے باقی ساری زندگی لپ سٹکیں اور جینز بیچ بیچ کر لوٹتے رہیں گے۔ چنانچہ کیپٹلزم کا پالتو دانشور آگے بڑھ کر اس لڑکی سے کہتا ہے

“بیٹا ! طلاق میں شرم کیسی ؟ یہ تو عورت کا حق ہے۔ اسے تو فرسودہ ذہنوں نے معیوب بنا کر دکھایا ہے۔ شاباش ! جلدی سےطلاق لو اور کیک کاٹ کر اسے سیلیبریٹ بھی کرو۔ تاکہ دنیا جان سکے کہ تم کتنی بہادر ہو”




آپ کو لاہور کی ایک یونیورسٹی میں ایک جوڑے کا وہ پرپوزل یاد ہے جسے منصوبہ بند طریقے سے وائرل کیا گیا تھا ؟اگر وہ پرپوزل فقط پرپوزل ہوتا تو ہم اس کی حمایت میں ایک سیکنڈ بھی نہ لگاتے۔ کوئی لڑکا لڑکی شادی شدہ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیں تو اس سے بڑھ کر خوشی کی اور کیا بات ہوگی ؟ مگر ہمیں دکھ ہوا تھا ۔ کیونکہ جانتے تھے کہ جو اس وقت تالیاں پیٹ رہے ہیں یہی سب مل کر ڈیڑھ دو سال بعد ان کی طلاق کروائیں گے۔ اور ان میں سے جو بچی ہے اسی کو ٹارگٹ کریں گے۔ کیونکہ شگاف صرف اسی کے دماغ میں ڈالنا ممکن ہے، یہ بڑے فیصلے بھی تعقل نہیں جذبات سے کرتی ہے۔ ٹشو پیپر کے ایک عدد ڈبے کا انتظام کرکے ذرا دو چار جذباتی جملے کہہ دیجئے، یہ ٹشو کا یہ ڈبا نصف خرچنے تک بڑا فیصلہ کرلے گی۔ دانشور کسی مرد سے بھی تو منوا کر دکھائے کہ طلاق بہت اچھی چیز ہے۔ دو منٹ میں اس کی دانش کا بھرکس نہ نکال دے تو ہمارا گریبان حاضر !

Related Posts