قومی اداروں کی نجکاری کا عمل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پی ٹی آئی حکومت نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کرنے جارہی ہے جس میں پاکستان اسٹیل ملز سمیت6 عوامی اداروں کی نجکاری کی جائے گی تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ منافع بخش بنایا جاسکے اور کچھ منافع حاصل کیا جاسکے۔

پروگرام کے مطابق حکومت سندھ انجینئرنگ ، ایس ایم ای بینک ، گڈو پاور پلانٹ، فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ ، جناح کنونشن سینٹر ، اور پاکستان اسٹیل ملز سمیت نقصانات سے دوچار پبلک سیکٹر اداروں کی نجکاری کرے گی۔ اس عمل کو تیز کرنے کے لیے 10سالوں بعد ایک اسٹریٹجک سیل قائم کیا گیا ہے جو 30 جون تک اس حوالے سے اقدامات مکمل کرلے گا۔

الیکشن سے قبل پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ وہ سفید ہاتھی سمجھے جانے والےحکومتی اداروں کی نجکاری نہیں کرے گی جن میں پی آئی اے اور پی ایس ایم جیسے ادارے شامل ہیں۔لیکن معاشی حالات نے حکومت کو ان اداروں کی فروخت پر مجبور کردیا ہے۔ حکومت کا مقصد ہے کہ ان کاروباری اداروں کی فروخت سے 150 بلین روپے سے زائد کی آمدنی حاصل ہو۔ حکومت کے مطابق اداروں کی نجکاری میں پیپرا قوانین اور عدالتی فیصلوں کو مدنظر رکھا جائے گا جبکہ نجکاری کا عمل وزیر اعظم کے 2018 کے وژن کے مطابق ہوگا۔

وفاقی وزیر نجکاری محمد میاں سومرو نے کہا کہ حکومت پہلے نقصان اٹھانے والے اداروں کی نجکاری کرے گی ، اور دوسرے مرحلے میں ان اداروں پر توجہ دی جائے گی جو ممکنہ طور پر چند وجوہات کی بنا پر آمدنی پیدا کرنے سے قاصر ہیں اور ان اداروں کی کارکردگی نجی شراکت داری سے بہتر بنائی جائے گی۔وسری جانب ، پی ایس ایم کی بھی سال کے آخر تک نجکاری کر دی جائے گی۔

نجکاری کے عمل کو پاکستان میں متنازعہ سمجھا جاتا ہے جس میں سرکاری ملکیت والےادارے نجی شعبے کے حوالے کردیئے جاتے ہیں جس میں فنڈز بھی شامل ہیں۔ نجکاری کا عمل پہلی بار 1991 میں نواز شریف کے دور میں شروع کیا گیا تھا جو تنازعات اور بدعنوانی کے الزامات سے دوچار ہوا کہ ان اداروں کو منظور نظرخاندانوں کو بیچا گیا ہے۔

نجکاری کواس لیے اچھا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ اس کا مطلب معاشرتی تحفظ کو نقصان پہنچانا اوراجارہ داری کا قیام ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرایا نہ جائے اور نجکاری کا عمل شفاف طریقے سےمکمل کیا جائے۔ نجکاری کی پالیسی ایسی بنانی چاہیے جس سے ملکی معیشت بہتر ہو، سرمایہ کاری او رروزگار کےنئے مواقع پیدا ہوں۔

حکومت چاہتی ہے کہ ا و جی ڈی سی ، پی پی ایل اور نقصان میں جانے والے 27 اداروں کی نیلامی کی جائے۔ دبئی ، قطر کے سرمایہ کاروں کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ان پراپرٹیوں کو خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ان اداروں کی نجاری پی ٹی سی ایل کی طرح نہیں ہونی چاہیے جس میں ایک سرکاری ادارے کو ایسے ہی نجی سیکٹر کے حوالے کردیا گیا تھا۔ پبلک سیکٹر کے ادارے مالی طور پرانتہائی نقصان سے دوچار ہیں اور اس حوالے سے مناسب میکانزم پر عمل ہونا چاہئے۔

Related Posts