غربت کفر کا باعث بن سکتی ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یہ کالم، ڈلاس ٹیکساس کے بانی اور یقین انسٹی ٹیوٹ کے صدر شیخ عمر سلیمان کے 2017 رمضان میں لیکچر سیریز ”عقیدے کی بحالی“ پر مبنی ہے۔میں پچھلے 4 سالوں سے یوٹیوب پر شیخ عمر کے لیکچرز اور کتب باقاعدگی سے دیکھ رہا ہوں اور شیخ اسلامی تعلیم کے ایک بہت بڑے استاد ہیں۔ انہوں نے مجھے اور بہت سے دوسرے افرادکو معاشرتی انصاف اور اسلام کی اہمیت سے متعارف کرایا ہے۔ میں اس موضوع پر مزید جاننے کے لئے ان کے لیکچر سیریز ”40 سوشل حدیثوں سے متعلق معاشرتی انصاف“ کی تقلید کرتا ہوں۔

جب ہمارے وزیر اعظم عمران خان پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست (ریاست مدینہ) میں تبدیل کرنے کی بات کرتے ہیں تو، بہت سے لوگوں نے اس بات کا خیرمقدم کرتے ہوئے ایک ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے جب کہ بہت سے لوگ اس بات کا مذاق اڑاتے ہیں یا مایوس ہیں کہ ایسا یہاں کبھی نہیں ہوسکتا۔

تاہم مجھے یقین ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کا ہدف نیک ہے اور اسلامی نقطہ نظر اور ہمارے بانی قائداعظم محمد علی جناح کے وژن سے، ہمیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنی چاہیئے تاکہ غربت میں مبتلا لوگوں کو آگے بڑھنے میں مدد فراہم ہوسکے۔ یہ سنجیدگی سے کسی شخص کے ایمان (ایمان / عقیدے) پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ ہم رمضان کے ابتدائی ایام میں ہیں، ہمارے نبی اکرم (ص) کے ذریعہ پہنچنے والی احادیث سے غربت سے متعلق اسباق کو پیش کرنے کا یہ اچھا وقت ہے۔

ایک مسلم معاشرے کا فرض سمجھ کر غربت کے خاتمے کے لئے ہمارے نبی (ص) اور ان کے صحابہ (صحابہ کرام) نے جو اہمیت بتائی ہے اس کی مثال نہیں ملتی، یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ غربت انسان کے اعتقاد کے لئے مشکل امتحان ہے۔بہت ساری روایات موجود ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا ہے کہ آپ (ص) ہرنماز کے بعد یہ دعا کر رہے ہیں، ”اے اللہ، میں کفر اور غربت سے پناہ مانگتا ہوں۔” جب صحابہ میں سے کسی سے یہ پوچھا گیا کہ آپ غربت اور کفر دونوں کو ایک ساتھ کیوں شمار کرتے ہیں۔ تو حضور (ص) نے جواب دیا۔ ”وہ ایک جیسے ہیں.”

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ غربت کفر کے برابر نہیں ہے (کفر) اس میں کہ غربت کا انتخاب نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی شخص کو مسلط کیا جاتا ہے جبکہ کفر جان بوجھ کر ہوتا ہے۔ تاہم، غربت ایک شخص کو اپنے عقیدے پر سوال کرنے یا ایسی باتیں کرنے کا باعث بن سکتی ہے جس سے ان کے ایمان کو نقصان پہنچے۔

ایک روایت میں، ایک شخص نے حضور(ص) کو قرض سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے سنا۔ جب اس شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ قرض سے اللہ (ص) کی پناہ مانگ رہے ہیں تو رسول اللہ (ص) نے جواب دیا، ”جب کوئی شخص قرض میں ڈوب جاتا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔ وہ وعدے کرتا ہے اور ان کو توڑ دیتا ہے۔ بعض اوقات اس کا نتیجہ غیر اخلاقی سلوک بھی ہوسکتا ہے اور یوں بہت سے ممالک میں یہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، غربت اور جرم کے درمیان باہمی تعلق بن جا تا ہے۔
 
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں غربت سے متعلق مندرجہ ذیل اسباق سکھائے ہیں۔

اسلام خود غرضی پر یقین نہیں رکھتا ہے۔ہمیشہ کفر و غربت سے اللہ کی پناہ مانگیں۔

غربت کا خاتمہ معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ حضرت محمد (ص) نے فرمایا، ”وہ مومن نہیں ہوسکتاجب رات کو سوتا ہے جب کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔” انسان کے ایمان میں یہ ایک کمزوری ہے کہ وہ اپنیضرورت سے زیادہ کی تمنا کرتا ہے جبکہ دوسرے غربت میں مبتلا ہوں۔ بنیادی طور پر، ہمارے نبی (ص) معاشرے پر اجتماعی عقیدے اور ایمان کے تحفظ کے لئے معاشرے پر غربت کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

غربت کے خلاف جنگ کے مذہبی فرائض کے علاوہ قائداعظم محمد علی جناح کاوژن بھی اس مقصد کی تکمیل کرنا تھا۔ یکم مارچ 1946 کو کلکتہ میں، مسلم لیگی کارکنوں سے خطاب کے دوران، قائد نے معاشرے کے پسماندہ افراد سے اپنی وابستگی بیان کرتے ہوئے کہا، ”میں ایک بوڑھا آدمی ہوں، خدا نے مجھے اس عمر میں آرام سے زندگی گزارنے کے لئے کافی کچھ دیا ہے۔ میں اپنا خون پانی میں کیوں بدلوں گا، بھاگ کر اتنی پریشانی کیوں اٹھاؤں؟ سرمایہ داروں کے لئے نہیں، بلکہ آپ کے لئے، غریب عوام کے لئے میں یہ سب کچھ کررہا ہوں۔

قائد اعظم نے کہا کہ 1936 میں، میں نے لوگوں کی غربت کو دیکھا ہے۔ ان میں سے کچھ کو کھانا بھی نہیں ملتا تھا، یہاں تک کہ دن میں کئی بار ایسا حال بھی دیکھا ہے کہ میرا دل ان کے لئے دھڑکتا ہے۔پاکستان میں ہم اپنی طاقت سے ہر ممکن کوشش کریں گے کہ ہر شخص کو اچھی زندگی گزار سکے۔

آزادی سے کچھ دن پہلے، 9 اگست 1947 کو کراچی کلب میں قائد نے غریبوں کی مدد کرنے کے اپنے موقف کی تصدیق کی، انہوں نے کہا کہ”ہمارا مقدس فرض ہے کہ ہم غریبوں کی دیکھ بھال کریں اور ان کی مدد کریں۔ اگر میں نے ان کے بارے میں اپنا مقدس فریضہ محسوس نہ کیا ہوتا تو میں گزشتہ دس سالوں میں کبھی بھی مشکلات اور تکلیفوں سے نہ گذرتا۔ ہمیں ان کی بہتر حالات زندگی کو محفوظ بنانا چاہئے۔ امیروں کو دولت مند بنانا ہماری پالیسی نہیں ہونی چاہئے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم چیزوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔

مذکورہ بالا حوالوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قائداعظم نے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست ہونے کا تصور بھی دیاتھا، میری دعا ہے کہ وقت کے ساتھ ہمارے موجودہ وزیر اعظم بھی قائد اعظم کی تقلید کریں۔ہم جانتے ہیں کہ یہ سب کرنا ایک انسان کے بس کی بات نہیں مگر ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں اس ملک کے شہری ہیں۔ ہم اپنے طور پر جو ہوسکتا ہے وہ کردار ادا کریں تاکہ اس ملک کی جڑوں کو مضبوط کیا جاسکے۔

Related Posts