افغان تنازعہ کاسیاسی حل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان دفتر خارجہ نے افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کے لئے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 5جنوری سےافغان مذاکرات اہم اور نازک مرحلے میں داخل ہونگے تاہم افغانستان کے بعض سرکاری و نجی حلقوں کی جانب سے منفی بیانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دفتر خارجہ نے منفی بیان بازی کے بجائے افغانستان پاکستان ایکشن پلان برائے امن و یکجہتی ودیگرمتعلقہ ورکنگ گروپس اس طرح کی بات چیت کے لئے مناسب ادار ہ جاتی فورمز پر بات چیت کا مشورہ دیا ہے۔

امریکا، طالبان اورافغان حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان کا کردار سب سے اہم رہا ہے، افغان امن عمل میں کئی بار اتار چڑھاؤ کے باوجود پاکستان ہمیشہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرتا رہا ہے جس کیلئے امریکا بھی کئی بار اعتراف کرچکا ہے اور اب ایک طرف افغان صدر اشرف غنی ہیں جو افغانستان میں ہی مذاکرات کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں اور دوسری طرف افغانستان میں بعض سرکاری و نجی حلقوں کی طرف سے منفی بیانات افغان تنازعہ کے سیاسی حل کو متاثر کرنے کے مترادف ہیں۔

افغانستان گزشتہ دو دہائیوں سے کشت و خون کی آگ میں جل رہا ہے اور اس آگ کے شعلے پاکستان کو بھی بری طرح متاثر کرتے رہے ہیں، پاکستان نے افغان جنگ کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھایا ہے اور اب امن کیلئے پاکستان حتیٰ الامکان کوششیں میں مصروف ہے اور ہر طرح کی رکاوٹوں اور رخنوں کے باوجود پاکستان امن عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے پر عزم ہے۔

پاکستان نے خطے میں امن کی بحالی کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیاں بھی تیز کردی ہیں اور افغانستان میں مارکیٹ شیئر60سے 65 فیصد تک بڑھانے کے ساتھ ساتھ یکم جنوری سے صنعتوں کیلئے خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی میں 6 فیصد کمی کا اعلان بھی کیا ہے اور کسی بھی صورت افغانستان کے ساتھ تجارتی راستوں کو بند نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی مسئلے کو عسکری قوت کے ذریعے حل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ طاقت کے بل پر ہونیوالا امن عارضی ثابت ہوتا ہے جبکہ سیاسی مفاہت کے ذریعے ہی مستقل اور دیرپا امن کا قیام ممکن ہے، افغانستان میں قیام امن افغان قوم کیلئے خوشحالی اور خطے میں استحکام لائے گا جس کے بعد دنیا سے تجارتی روابط مزید مضبوط ہونگے اور افغانستان کی معیشت بہتر ہوگی جس سے عوام کی زندگیوں میں بہتری آئیگی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان حکومت امن عمل میں رخنہ ڈالنے والی دیکھی ان دیکھی قوتوں کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑی ہو اور افغان تنازعہ کے سیاسی حل کا موقع کسی صورت ہاتھ سے نہ جانے دے۔

Related Posts