اقوامِ متحدہ سے وزیراعظم کا خطاب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں زبردست خطاب کیا تاہم پاکستانی میڈیا نے خطاب کے اہم نکات پر بمشکل بات چیت کی۔ اس کی بجائے 25 منٹ کی تقریر میں مرکزی دھارے کے میڈیا نے امریکی صدر رونالڈ ریگن کے حوالے سے وزیر اعظم کی مبینہ غلطی پر توجہ مرکوز رکھنے کا فیصلہ کیا اور افغان مجاہدین کو امریکی اجداد کے مساوی قرار دیا۔ رونالڈ ریگن کے دورا میں افغان مجاہدین کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ آزادی کے جنگجو ہیں اور انہی اصولوں کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں جو امریکا کو برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزاد قومی ریاست بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوئے۔

مغرب، خاص طور پر امریکا اور بھارت میں انسانی حقوق، اسلاموفوبیا اور ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں دولت کی مجرمانہ منتقلی (منی لانڈرنگ) کے متعلق وزیر اعظم عمران خان کے خطاب نے مغرب کو منافقانہ مؤقف پر آئینہ دکھا دیا تاہم محسوس ایسا ہوتا ہے کہ پاکستانی میڈیا اپنے ملک کے بیانیے کو پیٹھ دکھا کر ہمارے دشمنوں کےبیانیے کو فیض پہنچانے میں مصروف ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے کچھ زیادہ اہم نکات بیان کیے جن کا جائزہ لینا یہاں اس لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کیونکہ مرکزی میڈیا آپ کو یہ نکات نہیں بتائے گا۔

کلوروفلورو کاربنز کے اخراج میں پاکستان کی شراکت نہ ہونے کے برابر ہے۔ وزیر اعظم نے موسمیاتی تبدیلی پر اپنی تقریر کے آغاز میں یہی نکتہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم موسمیاتی اثرات کے حوالے سے دنیا کے 10 انتہائی حساس ممالک میں شامل ہیں۔ انہوں نے بلین ٹری سونامی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کیلئے اقدامات اٹھا رہا ہے تاکہ دنیا جان سکےکہ پاکستان ماحولیاتی مسائل کے حل کیلئے ذمہ داری سے کام کر رہا ہے۔

آگے چل کر وزیر اعظم نے کورونا وائرس، معاشی بد حالی اور موسمیاتی ایمرجنسی کے 3 گنا بحران پر بات چیت کی۔ انہوں نے کورونا سے نمٹنے کیلئے ہر شخص کو ویکسین لگانے کی اہمیت، ترقی پذیر ممالک کیلئے معاشی بد حالی سے نمٹنے کی مناسب فنانسنگ کی دستیابی اور موسمیاتی تبدیلی کا قلع قمع کرنے کیلئے اقدامات پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے دنیا کو سرمایہ کاری کی حکمتِ عملی تیار کرنے کیلئے زور دیا تاکہ غربت کے خاتمے، روزگار کے مواقع کو فروغ دینے، پائیدار انفراسٹرکچر کی تعمیر اور ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنے میں مدد مل سکے۔

پھر وزیر اعظم عمران خان نے منی لانڈرنگ کا ذکر کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کو آئینہ دکھا دیا کہ مغربی ممالک غربت زدہ ملکوں سے ان کی اشرافیہ کے ذریعے لوٹی گئی دولت کے محفوظ ٹھکانے بن چکے ہیں۔ امیر ممالک سے چوری کی گئی دولت واپس لینے کیلئے پسماندہ اقوام مشکلات کا سامنا کرتی ہیں جس کیلئے اقوامِ متحدہ کو آگے آنا ہوگا۔ وزیر اعظم نے تجویز دی کہ لوٹی گئی دولت کا محفوظ ٹھکانہ بنے ہوئے ممالک کو شرم دلائی جائے اور سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اعلیٰ سطحی پینل کو مالی احتساب، شفافیت اور سالمیت کی سفارشات پر عمل کریں۔

نائن الیون کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ شروع کی گئی اور اسلاموفوبیا کو فروغ دیا گیا۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے دائیں بازو، پر تشدد قوم پرستوں، انتہا پسندوں اور دہشت گرد گروہوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو فروغ دیا گیا۔ وزیر اعظم نے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلاموفوبیا کے عروج پر قابو پانے کیلئے بین الاقوامی مکالمہ شروع کریں۔

بھارت کے فاشسٹ چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہندوتوا نظریہ بھارتی ریاست کے جموں و کشمیر میں ہونے والے جبر و ظلم کو ظاہر کرتا ہے۔ حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کا مناسب جنازہ اور اسلامی طریقے سے تدفین ہونی چاہئے۔ بھارتی حکومت نے زبردستی حریت رہنما کی میت ورثاء سے چھین لی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا نے وہی باتیں رپورٹ کیں جو بھارت پاکستان کے  متعلق کہتا ہے نہ کہ وزیر اعظم بھارت کے متعلق۔

نیز وزیر اعظم عمران خان نے واضح طور پر وہ حالات بیان کیے جن میں پاک بھارت مذاکرات شروع ہوسکتے ہیں۔ بھارت کو 5 اگست 2019 کے یکطرفہ و غیر قانونی اقدامات واپس لینے ہوں گے۔ کشمیری عوام کے خلاف ظلم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں روکی جائیں۔ مقبوضہ علاقے میں آبادیاتی تبدیلیوں کو روکنا اور اس کے برعکس اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

افغانستان کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کی بڑی قیمت ادا کی۔ 80 ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے، 150 ارب امریکی ڈالرز کا نقصان ہوا اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ یہ سب کچھ پاکستان کے افغانستان پر قبضے کے خلاف فرنٹ لائن ریاست ہونے کی وجہ سے ہوا۔ وزیراعظم نے امریکا اور مغربی دنیا کو یاد دلایا کہ 80 کی دہائی میں امریکا اور پاکستان نے سوویت یونین (روس) سے لڑنے کیلئے افغان مجاہدین کو تربیت دی اور پھر یہی افغان مجاہدین نائن الیون حملوں کے بعد امریکا کے دشمن بن گئے اور پاکستان کے خلاف ہو گئے جس کی وجہ سے پاکستان میں ٹی ٹی پی جیسے مختلف عسکری گروپوں نے تشکیل پائی۔

اس دوران وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ افغان طالبان کو ملک کی سرحد سے ملحق پاکستانی قبائلی پٹی میں رہنے والے پشتون لوگوں کی ہمدردی ملی ہے کیونکہ طالبان کی زیادہ تر نسلی ساخت مذہبی نظرئیے کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ پشتون ہیں۔ وزیر اعظم نے واضح کیا کہ اسلام امریکا اور مغرب کے خلاف لڑائی کیلئے واحد محرک نہیں بلکہ ثقافتی ضابطے بھی اپنا دفاع کرتے ہیں۔ افغانستان کی تاریخ گواہ ہے کہ افغان قوم ہمیشہ غیر ملکیوں کے قبضے کے خلاف رہی ہے چاہے وہ برطانیہ کا قبضہ ہو، روسی ہوں یا امریکی قوم۔ لہٰذا امریکہ کو بھی 20 سال تک طویل جنگ کے بعد صرف شکست اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ افغان طالبان سے نمٹنے کا حل یہ ہے کہ انہیں تنہا نہ چھوڑا جائے، عالمی برادری انسانی حقوق کے احترام کیلئے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کرے، افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل عمل میں لائی جائے اور طالبان دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین کے استعمال کی اجازت نہ دیں۔

مندرجہ بالا نکات وزیر اعظم عمران خان کی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے تقریر میں دیکھے جاسکتے ہیں جن پر پاکستانی میڈیا نے توجہ نہیں دی جبکہ بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ جو کچھ وائٹ ہاؤس اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہوا، اس پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔وزیر اعظم نے کھل کر منی لانڈرنگ کو تنقید کا نشانہ بنایا، کیا ہمارا میڈیا وزیر اعظم کی آزادئ اظہارِ رائے سے کی گئی تقریر کو دنیا کے سامنے لانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے؟  کیونکہ وہ لندن میں بیٹھے ان کے من پسند لیڈر کے غیر ممالک میں چھپائے گئے اثاثوں کے خلاف ہیں۔

 

Related Posts