فلسطین میں جنگ بندی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

11دن کی اسرائیلی جارحیت اورشہریوں کی جانوں اور املاک کو بے حد نقصان کے بعدفلسطین میں حملوں کو روکنے کے لئے جنگ بندی ہوچکی ہے ،اسرائیل اور حماس کے مابین صلح کا اعلان بےگناہ فلسطینیوں کے لئے نہایت راحت افزاء پیغام تھا جو 11روز سے جاری کشیدگی میں کسی غیبی امداد کے منتظر تھے۔

مصر کی طرف سے کروائی جانے والی یہ جنگ بندی اس دباؤ کے بعد آئی ہے جس میں خواتین ، بچوں ، اسکولوں ، اسپتالوں ، میڈیا ہاؤسز اور امدادی اداروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ بین الاقوامی قانون کی سراسر خلاف ورزی تھی۔

11دن تک جاری رہنے والے تنازعہ میں 24بچوں سمیت 243 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ، 50ہزارسے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے جبکہ درجنوں اسکول اور اسپتال تباہ ہوگئے۔ جنگ بندی کے باوجودمظالم کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور عالمی برادری کو اسرائیل کے بارے میں اپنی پالیسیوں پر دوبارہ غور کرنا چاہئے۔

ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ جنگ بندی ہوگی اور دیرپا امن ہوگا۔ یہ ایک نازک صورتحال ہے اور یہ غیر معمولی خطے کو کسی معمولی محرک کی مدد سے دوبارہ جنگ میں گھسیٹ سکتا ہے۔ حماس ، جو غزہ کی پٹی کو کنٹرول کرتی ہے فلسطین کی واحد حربی قوت ہے۔ فلسطینی خطے میں امن برقرار رکھنے اور امدادی ایجنسیوں تک بلا روک ٹوک رسائی کی اجازت دینے کے لئے آزاد خودمختار قوت اور انسان دوست مشن کی تعیناتی ضروری ہے۔

اسرائیلی جارحیت کی مذمت میں پاکستان ایک سب سے آگے تھا۔ یہ ایک غیر معمولی موقع تھا کہ او آئی سی نے فلسطین کے معاملے پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست کی تاہم اس کے باوجودعالمی سطح پر متعدد بااثر ممالک کی واضح غیر موجودگی تھی۔ فلسطینیوں کے ساتھ مشترکہ نقطہ نظر اور اظہار یکجہتی کے لئے پاکستان کی کوششوں کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہم اپنے حقوق کے لئے اجتماعی کوشش کریں تو دیرینہ مسائل کو کس طرح اٹھایا جاسکتا ہے۔

آج غزہ ایک معاشی ناکہ بندی کا سامنا کرنے والا دنیا کا ایک انتہائی غریب ترین خطہ ہے ، 20 گھنٹوں سے زیادہ بجلی کی بندش ہے اور وبائی امراض کے مابین اس خطے کو کمزور کردیا گیا ہے۔ عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ خطے کی ترقی کے لئے سنجیدہ کوششیں کرے۔

اسرائیلیوں کوجب بھی کسی سیاسی بحران کا سامنا ہواانہوں نے فلسطینیوں پر حملہ کرنے کا سہارا لیا اور اپنے دفاع کے بہانے اسے جائز قرار دیا۔ ہمیں کوششوں کو نہیں روکنا چاہئے اور دہائیوں پرانے تنازع کے حل کے لئے ملکرکام کرنا چاہئے جو مشرق وسطی میں امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

Related Posts