فلسطین کاز اور ہماری جہالت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

فلسطین کے حوالے سے نہایت افسوسناک صورتحال صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پاکستانی بھائی اس کے مقدمے کا کوئی باقاعدہ شعور نہیں رکھتے۔ یہ نہیں جانتے کہ قضیہ شروع کیسے ہوا، کن کن مراحل سے گزرا، اور اس کا پائیدار و مطلوب حل کیا ہے؟

فلسطین کے حوالے سے ان کی کل معلومات بس یہ ہیں کہ مسلمانوں کی زمین پر یہودی قبضہ ہے، بیت المقدس مسلمانوں سے چھن چکا ہے، یاسر عرفات کی بیوی یہودی تھی اور حماس ایک عسکری تنظیم ہے جس کے بانی شیخ احمد یٰسین تھے۔ان نکات میں سے یاسر عرفات کی یہودی اہلیہ والے نکتے سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری قوم یہ تک نہیں جانتی کہ دنیا بھر میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہےجو نہ صرف یہ کہ مسئلہ فلسطین کا مکمل شعور رکھتی ہے بلکہ انہوں نے اپنی زندگی فلسطین کاز اور مسلمانوں کے حق کیلئے وقف کر رکھی ہے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی فلسطین کاز ہے۔

ہمارے پاکستانی بھائیوں کو تو صرف اس وقت فلسطین یاد آپاتا ہے جب وہاں کوئی بڑا واقعہ ہوجائے، جبکہ اس کے برخلاف فلسطین کاز سے جڑے یہودی ہر سال، ہر ماہ، ہر ہفتہ اور ہر روز اس کاز کے حوالے سے کام کر رہے ہوتے ہیں اور ان یہودیوں کے حماس رہنماؤں کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات ہیں۔ مثلاً آپ نارمن فنکلسٹائن کا معاملہ دیکھ لیجئے۔ یہ وہ دانشور ہے جس کا نام نوم چومسکی اور ایڈورڈ سعید جیسے قدآور لوگوں کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ یہ یہودی ہیں، فلسطین کاز سے متعلق کتابوں کے ہی مصنف نہیں بلکہ لاتعداد تقاریر، لیکچرز اور انٹرویوز بھی ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ آپ ان پر حماس کے اعتماد کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ عین دوسری انتفاضہ کے دوران یہ حماس کے ٹاپ لیڈر عبدالعزیز الرنتیسی کے ساتھ غزہ میں بیٹھ کر ان سے پوچھ رہے تھے:

”کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ کی حکمت عملی درست ہے ؟“

رنتیسی نے انہیں یہ نہیں کہا کہ ”اے یہودی ! تم کون ہوتے ہو مجھ سے یہ سوال پوچھنے والے؟“ بلکہ جواب دیا کہ:

”پہلی انتفاضہ میں ایک اسرائیلی کے بدلے ہمارے 20 لوگ شہید ہوئے تھے۔ اس بار یہ ریشو ایک کے بدلے 6 اسرائیلیوں کا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ہم گیپ کور کر رہے ہیں اور اسرائیل کو زیادہ نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں آتے جا رہے ہیں۔“

دنیا کے ایک نامور یہودی کے ساتھ بیٹھ کر حماس کے ٹاپ لیڈر کا یہ گفتگو کرنا، وہ بھی عین انتفاضہ کے دوران واضح کرتا ہے کہ کسی کے یہودی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فلسطینیوں کا دشمن بھی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال میکو پیلڈ کی بھی ہے، میکو کا دادا اسرائیل بنانے والوں میں سے تھا۔ اعلان اسرائیل کی دستاویز پر اس کے دستخط ہیں، مگر اسی فیملی کی اگلی جنریشن دیکھئے کہ میکو کے والد میتتیاہو پیلڈ اسرائیل کی فوج میں میجر جنرل رہے لیکن فوج چھوڑنے کے بعد فلسطین کاز سے جڑ گئے۔ خود میکوپیلڈ نے بھی یہی کیا۔ انہوں نے اسرائیلی فوج کی نوکری کو لات ماری اور فلسطین کاز کے لئے باپ کا دست وبازو بن گئے۔ میکو پچھلے 40 سال سے فلسطین کی آزادی کے لئے کام کر رہے ہیں اور اس کے باوجود کر رہے ہیں کہ ان کی ایک بھانجی بھی حماس کے ایک خود کش حملے کی زد میں آکر جان کھوچکی ہے۔ میکو تو چلئے ماموں تھے مگر ان کی جس بہن کی وہ بچی تھی، اس کا ردعمل بھی اپنی بچی کی موت پر یہ تھا کہ ہمیں فلسطین کے لئے مزید کام کرنا ہوگا، ورنہ مزید بچے مریں گے۔

ایسا نہیں کہ فلسطین کے حامی یہودیوں کو کسی ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یہ اس کاز سے جڑنے کی بھاری قیمت چکاتے ہیں۔ مثلاً نارمن فنکلسٹائن کو 2007ء سے کوئی بھی امریکی یونیورسٹی جاب نہیں دے رہی۔ ان کا کیریئر پروفیسر کا ہے۔ کوئی معمولی نہیں بلکہ ٹاپ کے پروفیسر ہیں۔ اسی طرح آپ نوجوان یہودی خاتون صحافی کیٹی ہالپر کو لے لیجئے۔ کیٹی کیپٹل ہل یعنی امریکی پارلیمنٹ کے چینل سے وابستہ تھیں۔ تین سال قبل اسرائیل کے خلاف صرف ایک سگمنٹ ریکارڈ کروانے کے جرم میں ملازمت سے برطرف کردی گئیں۔ سگمنٹ چلا بھی نہیں، صرف ریکارڈ کروایا گیا اور جاب گئی۔ ایسا نہیں کہ ایک جگہ سے جاب گئی تو دوسری جگہ مل جائے گی۔ اسرائیلی لابی پھر ایسے یہودیوں کا باقاعدہ تعاقب کرتی ہے کہ انہیں کہیں بھی ملازمت نہ مل سکے۔ چنانچہ کیٹی ہالپر کو یوٹیوب کا سہارا لینا پڑ گیا۔

اگر ہم افراد سے ہٹ کر اداروں کی سطح پر دیکھیں تو امریکہ میں شکاگو بیسڈ ویب سائٹ دی الیکٹرانک انتفاضہ ایک بے حد اہم ویب سائٹ ہے، اس کے کاز کا اندازہ اس کے نام سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ باقاعدہ نیوز ویب سائٹ ہے اور کوئی چھوٹی موٹی نہیں بلکہ بہت ہی تگڑی ویب سائٹ ہے۔ اگرچہ اسے لیڈ ایک فلسطینی مہاجر علی ابونعمہ کر رہے ہیں مگر اس گروپ میں کئی سرگرم یہودی و مسیحی بھی شامل ہیں۔ ان کا یوٹیوب چینل بھی ہےجہاں نہایت پر مغز انٹرویوز اور مکالمے دستیاب رہتے ہیں۔

دوسرے نمبر پر بے حد اہم ویب سائٹ mondoweiss ہے۔ یہ اسرائیل کے سیاسی و عسکری جرائم پر مکمل طور پر فوکسڈ ویب سائٹ ہے۔ اس کے فالوورز کی تعداد 20 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ امریکہ کے غیرمسلموں کی ویب سائٹ ہے لیکن اس سے کئی مسلمان بھی جڑے ہوئے ہیں۔ اس ویب سائٹ کی توجہ ہر طرح کے موسم میں فلسطین پر رہتی ہے اور یہ اس کاز کے حوالے سے شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔

تیسری ویب سائٹ ایک یہودی میگزین کی ہے۔ اس ویب سائٹ کا نام 972mag ہےیہ مکمل طور پر یہودی ویب سائٹ ہے لیکن فلسطین اور فلسطینیوں کی حامی ہے۔ اس حوالے سے اس کی تازہ لیڈ سٹوری کی سرخی سے اس کی کمٹمنٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جو کچھ یوں ہے

”فلسطینی پوچھ رہے ہیں کہ کیا تم ہمارے ساتھ ہو؟ امریکی یہودی دکھا رہے ہیں کہ ہاں ہم آپ کے ساتھ ہیں“

صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ میں یہودی لابی سے کٹ کر جے سٹریٹ نام کی ایک ایسی طاقتور آرگنائزیشن بھی وجود میں آچکی ہے جو کہتی خود کو پرو اسرائیل آرگنائزیشن ہے لیکن فلسطین اور اس کے باسیوں کے خلاف روا رکھے جانے والے اسرائیلی جرائم کے شدید خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی اس ادارے کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔

یہ چند نام ہم نے بطور مثال پیش کیے ہیں۔ ورنہ آپ انٹرنیٹ اور بالخصوص یوٹیوب پر سرچ کریں تو پتہ چلے گا کہ امریکہ میں ہی یہودیوں کے دو واضح گروپ بن چکے ہیں۔ ان میں سے ایک گروپ اسرائیل کا تو دوسرا فلسطین کا حامی ہے۔ اور ایک سروے رپورٹ کے مطابق امریکہ کے ایک تہائی یہودی فلسطین کاز کے حامی بن چکے ہیں۔ امریکی یہودیوں کے ان دو گروپوں کے مابین نہ صرف یہ کہ ڈبیٹ چلتی ہے بلکہ یہ اپنے اپنے یوٹیوب چینلز سے ایک دوسرے کے خلاف بھی برسر پیکار رہتے ہیں۔ اگر ہم فلسطین کے حامی یہودی گروپ کے چینلز کا جائزہ لیں تو فلسطین کاز کیلئے وہ جتنا آن لائن کام کر رہے ہیں، اس کے مقابلے میں ہم پاکستانی تو صفر کارکردگی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہماری کل کارکردگی یہ ہے کہ فلسطین میں کچھ بڑا واقعہ ہوجائے تو جلدی سے قوم کو اس راز سے آگاہ کردیں کہ یاسر عرفات ایک غدار تھا، کیونکہ اس کی بیوی یہودی تھی۔ اور اس کے بعد ہم فوراً کوک اور میکڈانلڈ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ ان دونوں کا بائیکاٹ کرکے اسرائیل کو نیست و نابود کیا جاسکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فلسطینی ہماری بک بک کو کوئی توجہ نہیں دیتے۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستانی ہمارے کیس میں کوئی مثبت حصہ نہیں ڈال رہے، بس ایک بے مقصد اور بے رُخا شور ہی مچائے جا رہے ہیں۔ جب ہماری ریلیوں کا عنوان فلسطینی مسلمان کے بجائے ”القدس“ ہوگا تو اس کا یہی پیغام جانا ہے کہ ہمیں بس قبلہ اوّل کی فکر کھائے جا رہی ہے، فلسطینی باشندے کی حیثیت ضمنی ہے۔ ہم نے اتنا سا غور بھی کرنے کی کوشش نہیں کی کہ خود فلسطینی اور ان کے کاز سے جڑے 3 بڑے مذاہب کے لوگ اس مقدمے کو کن ترجیحات کے ساتھ لڑ رہے ہیں؟ جب ہم فلسطینیوں کے مقدمے سے ہی ہم آواز و ہم آہنگ نہیں ہوں گے تو ہمارے شور کی کیا اہمیت؟

اس صورتحال کے ذمہ دار ہمارے نام نہاد مذہبی قائدین ہیں جو خود فلسطین کاز کا ٹکے کا شعور بھی نہیں رکھتے۔ اگر انہیں شعور ہوتا تو یہ ”القدس ریلی“ نکال رہے ہوتے؟ القدس تو فلسطینی ریاست کا حصہ ہوگا ہی۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد موجود ہے جسے روس اور چین جیسی بڑی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ فلسطین میں بہتے خون پر القدس کو ترجیح دینے والے یہ نام نہاد مذہبی رہنما تو یہ تک نہیں جانتے کہ مومن کے جان و مال کی حرمت کو توحرمتِ کعبہ پر بھی فوقیت حاصل ہے۔ چہ جائیکہ آپ بیت المقدس کو فلسطینی کے جان و مال پر ترجیح دے دیں۔ ہمارا کہا یہیں تمام ہوا۔ آپ ابن ماجہ :کی یہ روایت ملاحظہ کیجئے

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: ”اے کعبہ! تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہیے۔“

(ابن ماجہ۔ حدیث نمبر 3932)

Related Posts