آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ سے مسئلۂ کشمیر تک

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج سے ٹھیک 5سال قبل 27فروری 2019ء کے روز بھارت نے پاکستان کی حدود میں دراندازی کی کوشش کی جبکہ پاک فوج نے قوم سے کیا گیا وعدہ نبھاتے ہوئے ہمسایہ ملک کو سرپرائز دے دیا اور اسی سرپرائز کو آج ہم ”آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ“ کے نام سے جانتے ہیں۔

ملک کی عسکری اور سفارتی تاریخ میں آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے جس کے دوران بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا جس پر عالمی برادری پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی اور فوجی افسر کی گرفتاری جیسے عوامل پر آج تک بھارت سے سوالات کر رہی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوں گے۔

ہوا کچھ یوں کہ 26فروری 2019 کو بھارت نے رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فالس فلیگ آپریشن کیا جسے مودی حکومت نے سرجیکل اسٹرائیک کا نام دیتے ہوئے ہماری فضائی حدود اور قومی خودمختاری کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کی، بھارت نے دعویٰ کیا کہ اسٹرائیک کامیاب رہی ہے اور ہم نے 300 کے قریب دہشت گرد ہلاک کردئیے۔

لیکن دہشت گردوں کی ہلاکت اور فالس فلیگ آپریشن کی کامیابی کے دونوں ہی دعووں کو پاکستان نے جھوٹا ثابت کرتے ہوئے ایک فضائی جھڑپ میں نہ صرف بھارتی طیارہ مار گرایا بلکہ ابھی نندن نامی پائلٹ کو زندہ گرفتار کرکے اور پھر اسے بھارت کے حوالے کرکے ایک اعلیٰ عسکری و سفارتی مثال قائم کی۔

یہی وہ آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ تھا جس کے دوران بھارتی پائلٹ نے پاک فوج کی تیار کردہ چائے کی تعریف کرتے ہوئے ”ٹی اِز فنٹاسٹک“ کے الفاظ کہے جو تاریخ کا حصہ بن گئے اور آج بھی جب کوئی بھارتی شہری پاکستانی چائے کی تعریف کرے تو اس سے ہمیں آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ یاد آجاتا ہے۔

سفارتی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاک بھارت تعلقات پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے کشیدہ ہی رہے ہیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالتِ جنگ کے مقامات تو ضرور آئےلیکن لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب مستقل امن کبھی قائم نہیں ہوسکا۔ آئے روز بھارت کی جانب سے پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی روز کا معمول بن گیا۔

یہی نہیں، بلکہ بھارت نے قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی جنت نظیر وادئ کشمیر پر قبضہ کرکے گزشتہ 76سال سے وہاں آگ اور خون کی ہولی کھیلتے ہوئے ظلم و ستم کا وہ بازار گرم کیا جسے پاکستان اور بھارت میں انسانوں کی پیدا ہونے والی تیسری نسل بھی بڑی تشویش اور کرب کے ساتھ دیکھنے پر مجبور ہے۔

بدقسمتی سے بھارت نے پاکستان کے معرضِ وجود میں آجانے سے لے کر اب تک کسی بھی طرح پاکستان کو تسلیم کرنے یا ایک ہمسایہ ملک کے ساتھ بہترین روابط قائم کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی بلکہ موجودہ مودی حکومت سمیت بی جے پی کی تمام حکومتوں اور ماضی میں کانگریس کی جانب سے بھی پاکستان کو ہمیشہ ایک دشمن ملک قرار دیا گیا۔

جھوٹے فالس فلیگ آپریشنز ہوں، مقبوضہ کشمیر پر ظلم و ستم، جنگوں میں پاکستان جیسے ہمسایہ ملک سے منہ کی کھا کر پیٹھ پھیر کر بھاگنا ہو یا پھر آئے روز پاکستان کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ، ہمسایہ ملک کے سیاست دان ہمیشہ پاکستان کو اپنی سیاست چمکانے کے ایک وسیلے کے طورپر استعمال کرتے نظر آتے ہیں، حالانکہ دونوں ممالک کے عوام کے مابین اس سطح کی دشمنی دیکھنے میں نہیں آتی۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے تمام ممالک باہمی رنجشوں اور چپقلشوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی روش اپنائیں کیونکہ روس یوکرین تنازعے سے لے کر غزہ اسرائیل جنگ تک تمام تر تنازعات کا ایندھن عوام الناس بن رہے ہیں اور مغربی میڈیا ، روسی میڈیا اور یوکرینی میڈیا اپنے اپنے انداز میں ان واقعات کو سیاسی رنگ دے رہا ہے۔

بھارت نے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کو بھارت کے مودی نواز میڈیا کی مدد سے جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے ہوئے اپنی کامیاب سرجیکل اسٹرائیک قرار دیا اور اگر ہم 2019 کے بھارتی مؤقف کا جائزہ لیں تو بھارت نے پاکستان کو اپنی حدود سے آپریٹ کیے جانے والے دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا بھی مطالبہ کیا، جبکہ دہشت گردی ہمیشہ بھارت کی جانب سے یا پھر اس کی شہ پر افغانستان سے ہوتی آرہی ہے، پاکستان تو دہشت گردی کا نشانہ ہی بنتا آرہا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان سفارتی سطح پر بھارت کی چالوں کا بھی اسی سطح پر جواب دے، جیسا کہ پاک فوج نے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ میں بھارت کو دیا، حالانکہ پائلٹ ابھی نندن کی بھارت کو واپسی ایک بہترین سفارتی حکمتِ عملی قرار دی جاسکتی ہے، لیکن ہمیں سفارتی محاذ پر مزید اقدامات اٹھانے کی سخت ضرورت ہے۔

اس موقعے پر بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ گزشتہ سات عشروں سے جاری دشمنی میں ہونے والا جانی نقصان اسے کسی خوبصورت مستقبل کی جانب نہیں لے جائے گا بلکہ اکھنڈ بھارت کا وہ گھناؤنا فلسفہ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارت کو ایک امن پسند ملک بننے سے روکے ہوئے ہے جس کی بناء پر وہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کی حدود میں مداخلت سمیت دیگر جرائم کا مرتکب ہوتا ہے، اسے ترک کرنا ہوگا۔

اپریل اور مئی میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران بھارتی عوام کو نریندر مودی کی جگہ ایک نئی حکومت کا انتخا ب کرنا ہے جس کیلئے بی جے پی کے برخلاف اپوزیشن اتحاد ”انڈیا“ نے میدان مارنے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں، اس کے باوجود بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے ایک بار پھر نریندر مودی کو ملک کا وزیراعظم بنائے جانے کے امکانات نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔

الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی نکلے، اگر بھار ت کے عوام ہی یہ حقیقت سمجھ لیں کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ملک بھارت کا دشمن نہیں، بلکہ ہم پر امن بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت مسئلۂ کشمیر کے حل کو لازمی قرار دیتے ہوئے باہمی تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں کیونکہ مسئلۂ کشمیر دونوں ممالک کے مابین ایک ایسا سلگتا ہوا تنازعہ ہے جو کسی بھی وقت کسی نئی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے جس کے نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ اقوامِ عالم بھی متحمل نہیں ہوسکتیں۔

Related Posts