او آئی سی اور مسئلۂ کشمیر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی افریقی ملک نائیجر کے دورے سے وطن واپس لوٹ آئے ہیں جہاں انہوں نے او آئی سی کونسل کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کی۔ 2 روز کی گفت و شنید کے بعد 57 رکنی ممبران کے بلاک نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی تمام غیر قانونی کارروائیاں روک دے۔

پاکستان نے اِس اعلامیے کو اپنے مؤقف کی فتح اور اظہارئیے کے طور پر لیا جو سنا بھی جارہا ہے۔ ایک سال سے زائد عرصے سے پاکستان او آئی سی سے ایک الگ اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتا رہا ہے جب سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کی تاہم او آئی سی ہندوستان کے ساتھ وابستہ ذاتی مفادات کی بناء پر ایسے کسی اجلاس کے انعقاد سے گریزاں نظر آئی اور اس دوران اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کے باعث خلیجی ممالک سے  پاکستان کے تعلقات مزید خراب ہوئے۔

آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن (او آئی سی) کونسل برائے وزرائے خارجہ کے نیامے میں ہونے والے اجلاس کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ کشمیر او آئی سی کے ایجنڈے کا بھی حصہ نہیں تھا۔ دفترِ خارجہ کے مطابق او آئی سی نے متفقہ طور پر ایک اعلامیے کی منظوری دی جس میں مسئلۂ کشمیر کی ”مضبوط اور غیر متزلزل حمایت“ کا اعادہ کیا گیا اور بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو مسترد کردیا گیا تھا۔

قبل ازیں بھی او آئی سی نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بھارت کے الحاق اور غیر انسانی ڈومیسائل قوانین کی مذمت کی جو غیر کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں نوکری اور جائیداد خریدنے کی اجازت دیتے ہیں تاہم او آئی سی نے بھارت کو کبھی بھی خطے میں ایسے اقدامات سے باز رکھنے کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ او آئی سی کا کشمیر پر کوئی قانونی حق نہیں اور وہ اکثر او آئی سی کے بیانات کو مسترد کرتا آیا ہے۔

خوش آئند علامت یہ ہے کہ او آئی سی نے آخر کار گہری نیند سے جاگنے کے بعد اپنی آواز تو سنائی، تاہم مسئلۂ کشمیر پر محض بیان بازی اور اعلانات ناکافی ثابت ہوں گے، اسلامی برادری کو مزید ٹھوس کوششوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اٹھائے گئے غیر قانونی اقدامات واپس لے کیونکہ اس سے خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کیا جارہا ہے جس سے نئے تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ او آئی سی اعلامیے میں عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لے اور کشمیریوں کو امن عمل میں شامل کرے۔

ایسا نہیں ہے کہ او آئی سی کو مسلمانوں کے مسائل نظر نہیں آتے، او آئی سی کے ایجنڈے میں شامل دیگر امور میں اسلاموفوبیا اور غیر رکن ممالک میں مسلم اقلیتوں کی حالتِ زار بھی شامل تھی۔ پاکستان نے اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کی قرارداد منظور کی جو یورپی ممالک میں بڑھتے ہوئے گستاخانہ واقعات کے باعث ضروری ہے۔

اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک نے آئندہ برس اسلام آباد میں ہونے والے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں مسئلۂ کشمیر پر مزید بات چیت کا فیصلہ کیا ہے جو پاکستان کیلئے نئی سفارتی فتح قرار دی جارہی ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ عالمی ادارہ نہ صرف بھارت کی مذمت کرے بلکہ کچھ سنجیدہ اقدامات بھی اٹھائے۔

Related Posts