مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ، عوامی مطالبات اور نئی مردم شماری کا آغاز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ، عوامی مطالبات اور نئی مردم شماری کا آغاز
مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ، عوامی مطالبات اور نئی مردم شماری کا آغاز

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر نے گزشتہ روز ایک نیوز کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ اگلی مردم شماری کیلئے 10سال کے انتظار کی ضرورت نہیں جبکہ مشترکہ مفادات کونسل نے پرانی مردم شماری2017ء کے نتائج تسلیم کرتے ہوئے نئی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

مشترکہ مفادات کونسل ایک ایسا فورم ہے جس میں چاروں وزرائے اعلیٰ اور وزیرِ اعظم عمران خان مل بیٹھ کر اہم فیصلے کرتے ہیں۔ آئیے 2017ء کی مردم شماری کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے نئی مردم شماری کے فیصلے کا جائزہ لیتے ہیں۔

گزشتہ مردم شماری کے نتائج

وزارتِ منصوبہ بندی نے آج 2017ء کی مردم شماری کے نتائج جاری کردئیے ہیں جس کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ نفوس پر مشتمل بتائی گئی ہے۔ پنجاب کی آبادی کل آبادی کا 52اعشاریہ 9 فیصد، سندھ کی 23، کے پی کے کی آبادی 14 اعشاریہ 6، بلوچستان کی 5 اعشاریہ 9، فاٹا کی 2 اعشاریہ 4 جبکہ اسلام آباد کی صفر اعشاریہ 96 فیصد ہے۔

ملک کی آبادی میں مرد حضرات 10 کروڑ 60 لاکھ جبکہ خواتین 10 کروڑ 13 لاکھ تھیں۔ 1998ء کے مقابلے میں 4 سال قبل 2017ء کی آبادی میں اضافے کا تناسب 2 اعشاریہ 4 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ اسلام آباد میں سب سے زیادہ 2 ہزار 211 افراد فی مربع کلومیٹر جبکہ بلوچستان میں سب سے کم 35 افراد فی مربع کلومیٹر شمار کیے گئے۔

عمر کے اعتبار سے ملک کی 53 فیصد آبادی کی عمر 15 سے 64 سال اور 40 فیصد کی 15سال سے کم شمار کی گئی۔ مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک کی 63 فیصد آبادی دیہات جبکہ 36فیصد شہری علاقوں میں موجود ہے۔ 

مردم شماری کی اہمیت اور اختلافات 

اگر ہم مردم شماری کی اہمیت کا اندازہ لگانا چاہیں تو لوگوں کی تعداد، عمریں، دیہی و شہری آبادی کا تناسب، آبادی میں اضافے کی شرح اور دیگر اہم حقائق مردم شماری سے ہی معلوم کیے جاتے ہیں اور یہی وہ نکات ہیں جن کی بنیاد پر حکومت کسی بھی شہر یا صوبے کی تعمیر و ترقی سے متعلق اہم فیصلے کرسکتی ہے۔

جب 2017ء میں مردم شماری کے نتائج سامنے آئے تو سندھ اور بلوچستان سے اس پر شدید اعتراضات سامنے آئے۔ سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ سندھ اور بلوچستان کی آبادی کم شمار کی گئی ہے جس کی بنیاد پر ایوانِ اقتدار میں نمائندگی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن نہیں ہوسکے گی۔

مثال کے طور پر اگر کراچی کی آبادی 3 کروڑ ہے اور مردم شماری میں اسے نصف شمار کیا گیا ہے تو کراچی کو اسی حساب سے وسائل اور فنڈز فراہم کیے جائیں گے جو شہریوں کی ضروریات کیلئے ناکافی ثابت ہوں گے جس پر عوام کی طرف سے نئی مردم شماری اور وسائل کی تقسیم سے متعلق دیگر مطالبات زور پکڑ گئے۔ 

ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا ردِ عمل

متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ وفاق نے آج ہمارا اصولی مؤقف منظور کیا اور ہمارے نزدیک نئی مردم شماری کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ایم کیو ایم نے 2017ء کی مردم شماری کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ نئی مردم شماری کے نتائج آئندہ انتخابات سے قبل آنے چاہئیں۔

پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کی طرف سے مردم شماری کے نتائج تسلیم کیے جانے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے تحفظات ظاہر کیے تھے، اس کے باوجود مشترکہ مفادات کونسل نے نتائج منظور کر لیے۔

ترجمان سندھ حکومت بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ سی سی آئی (مشترکہ مفادات کونسل) کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے اور اختلافی نوٹ بھی پیش کرچکے ہیں۔ سندھ حکومت یہ معاملہ آئین کی دفعہ 154(7) کے تحت پارلیمان میں لے جائے گی۔ 

آڈٹ کا طریقہ اور نئی مردم شماری کا فیصلہ

اسد عمر کے بیان کے مطابق حالیہ مردم شماری کا آڈٹ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کا کوئی طریقہ کار سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ صرف یہی کیا جاسکتا ہے کہ یا تو مردم شماری کے نتائج منظور کر لیں یا مسترد کردئیے جائیں۔وزیرِ منصوبہ بندی نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے اگر مردم شماری مسترد کردی تو 1998ء کے نتائج کو تسلیم کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے اکثریتِ رائے سے فیصلہ کیا کہ مردم شماری کے نتائج منظور کیے جائیں۔ اگلے 6 سے 8 ماہ میں نئی مردم شماری کا فریم ورک تیار ہوگا۔ ہم اقوامِ متحدہ کے اصولوں کے مطابق مردم شماری سرانجام دیں گے۔ اکتوبر تک نئی مردم شماری شروع ہوجائے گی جو 2023ء میں مارچ یا اپریل تک مکمل ہوگی۔ اس مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں بھی تشکیل دی جاسکیں گی۔ 

Related Posts