خیرات نہیں مسیحا کی ضرورت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 پاکستان کے عوام سالانہ اربوں روپے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان خیرات دینے کے معاملے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتااور ماہ رمضان ، عید میلاالنبی اور دیگر مذہبی تہوار پر اربوں روپیہ خرچ کرتے ہیں۔

نذر ونیاز کے نام پر حلیم، بریانی، شربت اور دیگر اشیاء تقسیم کرنے پر سالانہ اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اور اسلامی تہواروں پر چراغ پر بھی کروڑوں روپے کے اخراجات آتے ہیں جبکہ پاکستان میں دینے والے مانگنے والوں سے بہت زیادہ ہیں۔

پاکستان میں ہم نے دیکھا کہ کوئی بھی قدرتی آفت ہو پاکستانی قوم فوراً امداد کیلئے کھڑی ہوجاتی ہے مگر اسی قوم کے لوگوں کو جب بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو بہت کم ایسے نام نظر آتے ہیں جو لوگوں کو روزگار فراہم کریں۔ ملک میں بیروزگاری کا یہ عالم ہے کہ اب سفید پوش لوگ بھی ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوچکے ہیں کیونکہ اخراجات بڑھتے جارہے ہیں مگر ان اخراجات کو پورا کرنے کیلئے کوئی وسائل نظر نہیں آتے۔

گزشتہ 70 سال سے پاکستان میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا چلا گیا، تعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں غربت کی تعداد میں کئی گنااضافہ دیکھا گیا اور انسان زندہ رہنے کیلئے وسائل کی تلاش میں رہ گیا۔ کاش کہ وہ لوگ جو بڑے بڑے نام رکھتے ہیں اور کروڑوں ،اربوں کی خیرات دیتے ہیں جو نمائش کیلئے رکھی جاتی ہے اور جسے میڈیا شہرت کی بلندیوں پر لیجاکر انہیں ہیرو بناکر پیش کرتا ہے۔

کسی زمانے میں صرف ایک ایدھی سینٹر قائم تھا جو کسی بھی مصیبت کے وقت غریب نادار لوگوں کیلئے مدد کیلئے کام آتا ہے اور لوگ ایدھی صاحب کی بے لوث خدمت کے قصیدے پڑھتے تھے اور انہیں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپیہ امداد دیتے تھے تاکہ غریب افراد کی مدد کی جاسکے ۔

ایدھی کو ملنے والی امداد دیکھ کر کئی اچھے ادارے اور بہت سے مفاد پرست ادارے اپنے فائدے کیلئے وجود میں آچکے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اب سیاستدا ن بھی پسند کرتے ہیں کہ عوام فقراء کی طرح امداد حاصل کرنے کیلئے کہیں مفت خوراک تو کہیں مفت دواء کی صورت ان کے محتاج رہیں ۔ عام انسان آج کل ہر جگہ بھیک مانگتا نظر آتا ہے۔

کبھی انصاف کیلئے، کبھی اپنی عزت کیلئے، کبھی اپنے بچوں کی تعلیم اور کبھی ادویات کیلئے بس مانگتے مرجاتا ہے مگر کوئی مسیحا پیدا نہیں ہوتا جو ان مانگنے والوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کردے۔ اگر ہم انہیں اربوں روپے کو جو ہم خیرات کے طور پر دیتے ہیں وہ پیسہ لوگوں کو کاروبار کیلئے دیدیں تو بے تحاشہ کاروبار پاکستان میں شروع کئے جاسکتے ہیں جس سے بیروزگاری دور ہوسکتی ہے اورمعیارزندگی بہتر بناکر کشکول توڑنا ممکن ہے۔

میری گزارش سب سے ہے کہ اپنے خیرات، زکوٰۃ، نذرونیاز کے پیسوں سے کسی ایک خاندان کی زندگی کو بدلنے کی کوشش کریں اور اسے موقع دیں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑاہوسکے۔ کسی کو کاروبار کھول کر دیں ،اگر ڈرائیور ہے تو اسے گاڑی خرید کردی جاسکتی ہے تاکہ وہ اسے ٹیکسی کے طور پر چلا کر اپنا گزربسر کرسکے۔

اگر باورچی ہے تو اس کو چھوٹا ریستوران کھول دیں، اگر درزی ہے تو اس کو ٹیلرنگ شاپ کھول دیں، اگر نائی ہے تو اس کو دکان ڈال دیں۔ اس طرح کئی کاروبار کھول جاسکتے ہیں جس میں زیادہ سرمائے کی ضرورت پیش نہیں آئیگی۔

ہم نے دیکھا ہے کہ سمندر پار مقیم پاکستانی بھی ہرسال کروڑوں روپیہ نذرونیاز کیلئے ملک میں  بھیجنے ہیں لیکن اگر وہ امداد دینے کے مستحق پاکستانی بچوں کو بیرون ملک جانے کیلئے وسائل پیدا کردیں تو کئی خاندانوں کی زندگیاں بہتر بن سکتی ہیں اور یہ کام ان کی خیرات سے کئی گنازیادہ فائدہ مندہ ہوگا۔

اسلام مسلمان کو دوسرے مسلمان کی زندگی بہتر بنانے کا درس دیتا ہے اس لئے کہا یہ جاتا ہے کہ جیسا اپنے بھائی کیلئے سمجھتے ہو ویسا ہی دوسرے انسان کیلئے سمجھیں اور ہر اچھا انسان یہ چاہیے گا کہ اس کا بھائی بھی اسی کی طرح اچھی زندگی بسر کرے ناکہ خیرات اور بھیک پر زندہ رہے۔

کسی کی زندگی بدلنا اس خیرات سے بہتر ہے جس سے کسی کی عزت نفس پر حرف آئے اور لئے ہمیں خیرات نہیں مسیحا ؤں کی ضرورت ہے جو لوگوں کی زندگیاں بدل سکیں۔

Related Posts