نوازشریف کی مشکلات ختم ہوچکیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

علامہ اقبال نے ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر وطن عزیز پاکستان کی صورت ظاہر ہوئی۔ یہ جاگتی آنکھوں کا خواب تھا سو اپنی تعبیر کے لئے انتظار نہیں بلکہ جد و جہد چاہتا تھا۔

اس جد و جہد کا بیڑا قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانانِ ہند کی ایک بڑی تعداد نے اٹھایا اور اس تعبیر کو پایا چونکہ یہ ملک ایک جمہوری جد و جہد کے نتیجے میں بنا تھا اور بنانے والوں نے ہی اسے اسلامی جمہوری نظام کے تحت چلانے کا حتمی فیصلہ کرلیا تھا لہٰذا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بعد کے ادوار میں جمہوری قوتیں ہی جمہوری نظام کے تحت ان اغراض و مقاصد کے حصول کو یقینی بناتیں جن کے لئے یہ ملک بنا تھا۔ لیکن گڑبڑ یہ ہوگئی کہ علامہ اقبال کے جاگتی آنکھوں والے خواب کا پہلے دن سے ہی ہمارے جرنیلوں پر گہرا اثر ہوگیا۔

نتیجہ یہ کہ ہر دس سال بعد کوئی نہ کوئی جرنیل بھی ملک کو “عظیم تر” بنانے کا خواب دیکھ لیتا ہے۔ ان کے ہاں پاکستان کو بدست خود عظیم ترملک بنانے کا شوق اتنا زیادہ ہے کہ جمہوری ادوار میں وہ باقاعدہ کوششیں کرتے ہیں کہ ملک کہیں جمہوری دور عظیم نہ بن جائے۔

وہ ایسا ملک کو نقصان پہنچانے کی نیت سے بالکل نہیں کرتے۔ وہ تو بس ملک کو بدست خود عظیم تر بنانے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ ذہین اور ڈسپلنڈ لوگ ہیں سو پرانے تجربات کا اعادہ نہیں کرتے۔ ہر بار کچھ نیا کرتے ہیں مگر جمہوری جد و جہد والے منحوس ہر بار انہیں ناکام کر دیتے ہیں۔ جو تجربات ایوب خان نے کئے، ان کا اعادہ ضیاء نے نہیں کیا اور ضیاء کے تجربات کو مشرف نے نہیں دہرایا۔

ایوب نے صنعتی، ضیاء نے اسلامی، اور مشرف نے روشن خیال پاکستان کا خواب دیکھا۔ ایوب نے جیل کا استعمال اور سزاؤں کا ڈراوا دیا۔ ضیاء نے سزاؤں کے ڈراوے کو حقیقت کا روپ دے کر کال کوٹھریاں آباد کرکے دکھائیں جبکہ مشرف نے فوجی آپریشنز کی راہ اختیار کی۔ ان کا ماٹو تھا “ایسی جگہ سے ہٹ کروں گا کہ پتہ بھی نہیں چلے گا” اور واقعی پتہ ہی نہ چلتا تھا کہ کہاں سے ہٹ کیا جا رہا ہے۔

مگر ہر غیر آئینی خواب چکناچور ہوا۔ ایک بھی غیر آئینی خواب اپنی تعبیر نہ پاسکا۔ لیکن آفرین ہے خواب دیکھنے والوں کی ہمت پر کہ خواب دیکھنا ترک نہیں کر رہے۔ جنہوں نے چوتھی بار خواب دیکھا وہ ایک الگ ہی آئیڈیئے کے ساتھ سامنے آیئے۔ بلکہ کمال تو یہ ہے کہ سامنے آکر بھی سامنے نہیں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ بریفنگز بھی آف دی ریکارڈ دیتے ہیں کیونکہ آن دی ریکارڈ کا مطلب تو سامنے آنا ہوتا ہے اور سامنے تو آنا نہیں۔ چنانچہ ہیں بالکل سامنے مگر سامنے اب تک نہیں آئے۔ اسی لئے “ہائبرڈ” کہلائے۔

قوم یوں ہی تو نہیں گنگناتی کہ کوئی تو ہے جو نظام ملکی چلا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس بار والوں نے کمال یہ کیا کہ پرانے پاکستان میں کچھ کرنے کے بجائے خواب ہی نئے پاکستان کا دیکھا۔ اپنے ڈونکی کنگ کو جناح کیپ بھی پہنا لی مگر شومئی قسمت کہ نظر وہ پھر بھی ڈونکی ہی آتا رہا۔ صرف نظر آنا ہی کیا بلکہ اس کی آواز بھی انکر الاصوات ثابت ہوچکی۔ جب بھی بولا اپنے مالکان کو بھی بدمزہ کرگیا۔ دو لتی اس کی کیسی ہے یہ کوئی جہانگیر ترین سے پوچھ دیکھے۔

نئے پاکستان کے لئے پرانے پاکستان کے آخری وزیر اعظم کو جس سپریم کورٹ سے “نااہل” قرار دلوایا گیا اسی سپریم کورٹ سے نئے پاکستان کے بانی کے لئے “صادق و امین” ہی نہیں بلکہ “نہایت اہل” کی سند بھی جاری کروا لی گئی۔ مگر آج تین سال بعد صورتحال یہ ہے کہ پرانے پاکستان کے آخری وزیر اعظم نے ملکی معیشت کو جس سطح پر چھوڑا تھا اب سطح تک واپس پہنچنے کے لئے سالوں کا سفر درکار ہے۔

ناکام چوتھا تجربہ بھی ہوچکا۔ دس سالہ منصوبے کا خواب دیکھنے والے اپنے خواب سے کب کے دستبردار ہوچکے مگر “سیف ایگزیٹ” ہے کہ مل کر نہیں دے رہا۔ شہباز شریف لندن جا نہیں رہے، بھیجے جا رہے ہیں۔ ایک سیف ایگزیٹ پلان کی منظوری درکار ہے مگر ڈونکی کنگ اس میں رکاوٹ۔ وہ دو سال مزید ملک و قوم کی “خدمت” پر مصر۔ اب اگر گریبان سے پکڑ کر اتارتے ہیں تو ہائبرڈ حجاب تارتار ہوتا ہے۔

اگر سامنے آنا ممکن ہوتا تو ہائبرڈ نظام کا کشت ہی کیوں اٹھایا جاتا ؟ ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کے نصیب میں آپشن ہی “جمہوری عمل” رہ گیا ہے۔ یعنی جان یوں چھوٹے کہ ساری سرگرمی جمہوری عمل نظر آئے۔ ایسے میں جنہیں نااہل کیا گیا تھا وہ رج کے اس صورتحال کے مزے لے رہے ہیں۔

انہیں کوئی جلدی نہیں۔ وہ کسی مناسب موقع پر دو چار منٹ کے لئے لندن کی ایک فٹ پاتھ پر میڈیا سے روبرو ہوتے ہیں اور پوری قومی سیاست کو مرتعش کرکے چلتے بنتے ہیں۔ صورتحال یہ ہوگئی کہ جو صاحب اختیار ہیں ان کا اختیار اب اتنا اثر نہیں رکھتا جتنا لندن کا ایک بے اختیار سیاست میں بااثر ہوگیا ہے۔

سیاست کا ادنی سا شعور رکھنے والا بھی اس نتیجے تک پہنچ چکا کہ یہ حکومت اب اس لئے برسر اقتدار نہیں کہ زور میں ہے بلکہ اس لئے تاحال برقرار ہے کہ اس کی رخصتی کے لئے جو اشارہ درکار ہے وہ صرف نواز شریف کے پاس ہے اور انہیں کوئی جلدی نہیں۔

نواز شریف جانتے ہیں کہ اب ہر گزرتا دن ہائبرڈ نظام کے خالقوں پر ہی بھاری پڑنا ہے۔ سو وہ اعصاب چٹخانے پر تل چکے۔ شہباز لندن نہیں جاسکے تو اس کا نواز شریف کو ٹکے کا فرق نہیں پڑنا۔

فرق تو انہیں پڑنا ہے جن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کسی نے حال ہی میں کہا تھا “مجھے پتہ ہے کہ شہباز شریف کو باہر کون لایا ہے” مشکل میں وہی ہے جو شہباز شریف کو باہر لایا ہے۔ نواز شریف کی مشکلات تو کب کی ختم ہوچکیں، اب کسی اور کو اپنی متوقع مشکلات کی پڑی ہے !۔

Related Posts