اے پی سی میں نواز شریف کی تقریر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سابق وزیرِ اعظم اور ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں تقریر یا یوں کہئے کہ کرپٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان نے گزشتہ اتوار کو منعقدہ میڈیا میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت تمام اہم اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے بدنام اور نام نہاد انقلابی آواز اٹھائی تاہم اِس کے نتیجے میں ایک تلخ شخص قوم کو دِکھایا گیا جو اقتدار سے باہر رونے اور جزوی حقائق کی ترجمانی بھی نہ سنبھال سکا ۔

سب سے پہلے تو مجھے یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ سابق وزیرِ اعظم اپنی تقریر کرتے ہوئے کافی صحت مند اور جسمانی طور پر چاک و چوبند تھے جنہیں پوری قوم نے ٹی وی پر دیکھا، تاہم مجھے یہ حیرت ہے کہ میڈیا اور مسلم لیگ (ن) کے وہ نام نہاد رہنما کہاں ہیں جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اگر بیرونِ ملک علاج معالجہ نہ ہوا تو نواز شریف عنقریب خدانخواستہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں گے۔ ہمیں نواز شریف کے صحتیاب ہونے جیسے معجزات کیلئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہوگا۔

میرا یقین ہے کہ نواز شریف کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی تعریف کرتے ہوئے کئی بار اپنی زبان کو دانتوں سے کاٹنا پڑا ہوگا۔ انہوں نے سب سے پہلے اے پی سی سے خطاب کی دعوت پر سب کا شکریہ ادا کیا اور بلاول کو مسٹر کی حیثیت سے مخاطب بھی کیا۔ جنابِ والا! ہم سب کو یہ علم ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین کتنی تلخیاں ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی نے ہی سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے بدعنوان ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور حکومت میں آنے کے وقت ہی انہیں بے دخل کرنے کی کوششیں کیں۔ عدالتوں میں قانونی داؤ پیچ اور محاذ آرائی الگ جاری تھی۔

نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے منتخب وزرائے اعظم کو بے دخل کرنے کی قومی سطح پر بڑی بڑی سازشیں ہو رہی ہیں، تاہم میں انہیں یاد دلانا چاہوں گا کہ انہوں نے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سازشوں میں خود ایک اہم کردار ادا کیا اور خاص طور پر 1990ء اور 1996ء میں بے نظیر بھٹو کی 2 حکومتوں کو گرانے میں پیش پیش رہے۔

انہوں نے ریاست سے بالاتر ریاست کی بات کی تو اِس شکایت کو ہم بھارت اور پاکستان کے دیگر دشمنوں میں بجنے والی خوش کن موسیقی سے تشبیہ دے سکتے ہیں، نواز شریف کو چاہئے  تھا کہ وہ خود پر بھی سازش کی اجازت دینے کا الزام لگاتے، تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یہ جنرل ضیاء اور جیلانی ہی تھے جو نواز شریف کو اقتدار کی سیاست میں لائے۔ جب نواز شریف لاہور میں صرف ایک کونسلر کی معمولی سیٹ جیتنے کے لائق نہیں تھے۔ میرے خیال میں ریاست سے بالاتر ریاست ان کے لیے ٹھیک تھی جب ان کے سیاسی والد جنرل ضیاء الحق نے اقتدار حاصل کیا جس کے نتیجے میں چیف آف اسٹاف نے 1990، 1997 اور 2013ء میں اقتدار حاصل کرنے میں ان کی مدد کی۔جو ہاتھ آپ کو کھلائے، اسے کاٹنے کی بات ضرور کرنی چاہئے۔ 

انتخابی دھاندلی کے معاملے میں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اور مرکز میں حکومتیں تشکیل دیں تو کیا متعدد بار نواز شریف نے بھی انتخابات میں کامیابی کیلئے دھاندلی کا استعمال کیا؟  ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ آئی جے آئی اتحاد نے سن 1988ء کے انتخابات کے دوران پی پی پی کے فوائد روکنے کیلئے اور 1990ء کے انتخابات میں اصغر خان کیس کی تفتیش سے ظاہر کیا تھا۔ میں نواز شریف کو یہ بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آخری بار فارورڈ بلاک سن 2008ء کے انتخابات کے بعد آپ نے اور آپ کی پارٹی نے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے اندر قائم کیا کیونکہ ن لیگ کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ یہی بلاک 5 سالہ ن لیگی دورِ اقتدار کا باعث بنا۔

ن لیگ کے قائد نواز شریف جو یہ بیان دیتے ہیں کہ وہی عدلیہ جو سیاستدانوں کو سزا دیتی ہے وہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزا نہیں دیتی۔ تو میں بتانا چاہوں گا کہ یہ عدلیہ ہی تھی جس نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے پوچھا کہ وہ پرویز مشرف کے معاملے میں کیا کرنا چاہتے ہیں ؟ کیونکہ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ مشرف کو ای سی ایل میں رکھیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کریں یا پھر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، نواز شریف نے مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے۔ نواز شریف مشرف کو فرار کا راستہ دینے کے ذمہ دار خود ہیں۔ 

تقریر کے دوران نواز شریف نے شکایت کی کہ عدلیہ / نیب عاصم سلیم باجوہ تنازعے کا نوٹس نہیں لیتے۔ میں یاد دلانا چاہوں گا کہ جب پاناما پیپرز کا انکشاف ہوا تھا تو پاکستان میں ابتدائی طور پر تو کسی بھی ادارے نے نوٹس نہیں لیا، حالانکہ نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے بارے میں پیپرز میں انکشافات کیے گئے تھے۔ پھر عمران خان کو ایک احتجاجی تحریک چلانی پڑی جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف کے خلاف تحریکِ انصاف کی درخواست کی سماعت کی۔

اب ن لیگ اپوزیشن میں ہے تو شہباز شریف اور مریم نواز کو کیوں ہدایت نہیں کی جاتی کہ وہ عاصم سلیم باجوہ کے خلاف عمران خان جیسی آئینی درخواست دائر کریں؟ اگر آپ کو یقین ہے کہ عاصم سلیم باجوہ بدعنوان ہیں تو انہوں نے آپ کے دورِ اقتدار میں ایسا کیا ہوگا، آپ نے اُس وقت ان کے خلاف ایکشن کیوں نہ لیا؟

خارجہ امور کے محاذ پر موجودہ حکومت کو نواز شریف نے اپنے طور پر ایک طرح سے دھماکے سے اڑا دیا، جب انہوں نے یہ کہا کہ خارجہ امور کسی بچے کا کھیل نہیں۔ لیکن قوم ان سے یہ ضرور پوچھے گی کہ انہوں نے بطور وزیرِ اعظم اپنے آخری دورِ اقتدار میں ایک کل وقتی وزیرِ خارجہ کیوں تعینات نہ کیا؟ وزارت کو خود پاکستان کے نقصان میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ نیز، نواز شریف نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی یا دیگر پلیٹ فارمز پر اپنے خطابات میں مسئلۂ کشمیر پر کھل کر بات کیوں نہ کی؟ اور بمشکل ذکر کرکے آگے کیوں نکل گئے؟ ہماری سکیورٹی فورسز نے سن 2016ء میں بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا جس نے پاکستانی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ماسٹر مائنڈ کا کردار ادا کیا لیکن سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے کبھی عوام کے سامنے کلبھوشن کا نام تک نہ لیا۔

سن 1971ء میں مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بارے میں نواز شریف نے مطالبہ کیا کہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ آپ 3 بار وزیرِ اعظم بنے جس کے دوران حمود الرحمان کمیشن رپورٹ عوام کے سامنے لائی جاسکتی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ رپورٹ کا ذکر حکومت کو بلیک میل کرنے کیلئے تدبیر کے طور پر کیا گیا۔ بطور وزیرِ اعظم نواز شریف نے اسامہ بن لادن کے بارے میں ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو بھی پبلک نہیں کیا، حالانکہ نواز شریف نے قوم سے اِس کا وعدہ بھی کیا تھا۔

مذکورہ تقریر کے دوران ہمیں یہ علم ہوا کہ نواز شریف صرف شوکت صدیقی اور قاضی فائز عیسیٰ جیسے چند ججز کو پسند کرتے ہیں اور صحافیوں میں انہیں میر شکیل الرحمان پسند ہیں ، مجھے یقین ہے کہ جنگ گروپ عوام کو اِس بات کی وضاحت ضرور کرے گا کہ نواز شریف اور ن لیگ کیلئے اِس میں کیا بہتری ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک ماسٹر اسٹروک یہ لگایا کہ انہوں نے نواز شریف کی تقریر کو براہِ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی، یہ پوری قوم کو نواز شریف کی تلخی اور دھوکے بازی سے آگاہ کرنے کیلئے تھا۔ آزادئ اظہار اور میڈیا کا بیانیہ بھی اِس سے واضح ہوا۔ ایک مفرور مجرم کی تقریر میں پاکستانی عوام اور قومی اداروں پر کڑی تنقید کی گئی۔ مزید آپ کو کتنی آزادی چاہئے؟ اتوار کے روز نواز شریف نے تقریر کرکے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی ماری۔

برطانوی حکومت سے میرا سوال یہ ہے کہ کوئی غیر ملکی مجرم جو آپ کے ملک میں ہماری عدلیہ کے ذریعے منظور شدہ طبی علاج معالجے کیلئے آئے، وہ آپ کی سرزمین پر اپنے ہی وطن کے خلاف تقریر کیسے کرسکتا ہے؟ یہاں میرے یقین کے مطابق ہونا یہ چاہئے کہ نواز شریف کو فوری طور پر یا تو ملک بدر کردیا جائے یا پھر وہ سیاسی پناہ کیلئے درخواست دیں اور باقی زندگی بانئ متحدہ کی طرز پر جلا وطنی میں گزاریں۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نواز شریف کی تقریر نے ان کے ہی چھوٹے بھائی شہباز شریف کی سیاست کو خطرے میں ڈال دیا ہے لیکن اس سے فضل الرحمان بڑے خوش ہوئے جو پاکستان میں نفرت اور انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے پر راضی ہوں گے۔ اس کی بجائے اگر نواز شریف پاکستان میں قومی اداروں اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے کیلئے اپنے کردار کا اعتراف کرتے تو یہ کچھ الگ بات ہوتی۔

اتوار کی اے پی سی یا گروہِ بدعنواناں نے کیا عوام الناس کے مسائل مثلاً غربت، افراطِ زر یا بے روزگاری پر کوئی بات کی؟ کیا انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کا کوئی ذکر کیا؟ لیکن افسوس کہ بھارت کو سکھ پہنچانے کیلئے اپوزیشن نے پاکستان کے ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا۔ 

Related Posts