آہ میرے شیخ تہہ مزار چلا گیا!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

امام کعبہ شیخ عبدالرحمٰن السدیس نے ناشتے میں مدعو کیا جب پہلی مرتبہ آپ کو دیکھا، رسمی ملاقات کے لئے 30 منٹ کا وقت دیا مگر جب ناشتے کے میز پر گفتگو کا آغاز ہوا تو امام کعبہ چند ساعتوں میں سمجھ گئے کہ پاک سرزمین سے تشریف لانے والے مہمان کوئی عام مولوی نہیں بلکہ بحرالعلوم ہے۔

عربی ادب کے مایہ ناز اسکالر اور بے مثال خطیب ہے،  دیوبند کا فیض یافتہ ایک ایسا عالم باعمل جو حدیث فقہ اور تفسیر میں زبردست مہارت رکھتاہے، ٹھوس علمی مدلل گفتگو، انداز بیاں عربی ادب میں دسترس دیکھ کر یقیناً شیخ عبدالرحمٰن السدیس بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور پھر آدھا گھنٹے کی رسمی ملاقات کئی گھنٹوں کی غیررسمی ملاقات میں تبدیل ہو گئی۔

یہ عظیم شخصیت کوئی اور نہیں میرے پیر و مرشد شیخ الحدیث مولانا محمد محبّ اللہ القاسمی الرفاعی الشاذلی تھے۔ آپ نے داراالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد جامعہ اشرفیہ لاہور سے دوبارہ دورۂ حدیث مکمل کیا، استاد محترم کراچی کے معروف ادارہ جامعہ دارالعلوم رحمانیہ بفرزون میں تدریس سے وابستہ رہے جہاں عرصہ دراز تک حدیث پڑھانے کا شرف حاصل ہوا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، سالہا سال تک بخاری شریف ، مسلم شریف، طحاوی شریف ، ہدایہ ، مقامات حریری سمیت عربی ادب کے مختلف علوم وفنون کا درس دیتے رہے۔

دنیا بھرمیں حضرت کے لاکھوں تلامیذ ہیں۔ میں جب جامعہ دارالعلوم رحمانیہ میں ابتدائی دراجات پڑھنے کے لئے گیا تو دیکھا کہ ہر ایک طالبعلم کی دلی خواہش تھی کہ استاد محترم سے اسباق پڑھے بلکہ بعض طالبعلموں کی جامعہ آنے کی وجہ ہی یہی تھی کہ مولانا شبیراحمدانورآبادی اور شیخ محب اللہ قاسمی صاحب سے شرف تلمیذ حاصل ہو۔ 
ہم نےحضرت کا عہد شباب دیکھا ہے آپ کا لباس اور انداز کسی شہزادے سے کمتر نہ تھا۔ ہم نے استاد محترم سے مقامات حریری اور ہدایہ پڑھی ہے۔ حضرت کے درس کی ایک ممتاز خصوصیت آپ کا طرزِ تکلم اور اندازِ گفتگو تھا، جب سلسلہٴ درس و کلام شروع ہوتا تو تمام طلبہ گوش بر آواز ہوجاتے، گفتگو میں ایسی سحر کاری، حلاوت اور چاشنی ہوتی تھی کہ ہرسننے والا ان کا گرویدہ ہوجاتا، حضرت کو اکثر و بیشتر جامعہ کے جلسوں میں نقابت کے فرائض انجام دیتے ہوئے دیکھا حضرت جب اسٹیج پر جلوہ افروز ہوتے گویا اردو کا ابوالکلام اور عربی کا ابومحمد قاسم الحریری علم و ادب کے خزانے تقسیم کر رہا ہے۔
جامعہ میں جب بھی ارض مقدس یا سرزمین عرب سے کوئی مہمان تشریف لاتے آپ ہی جامعہ کی طرف سے نمائندگی فرماتے۔ استاد محترم عربی میں ایک منفرد اور نرالے اسلوب کے مالک تھے، جس میں حلاوت بھی تھی اور لطافت بھی انتہائی شائستگی کے ساتھ متاثر کن انداز میں گفتگو آپ شخصیت کا آئینہ دار تھا۔
حضرت شیخ اپنے وقت کے مایہ ناز خطیب، بے مثال ادیب، محقق عالم دین ، فنون میں ماہر استاد کے ساتھ ساتھ ایک بہترین والد بھی تھے۔ بچوں کےساتھ مشفقانہ و دوستانہ تعلقات دیکھ کر لوگ ورطہ حیرت میں آجایا کرتے تھےکہ اسقدر علمی جاہ و جلال کے باوجود بچوں اور شاگردوں کے ساتھ صبر، برداشت اور ایثار و محبت کا معاملہ فرمانا انہی کا کمال وصف ہوسکتا تھا۔
ان تمام صلاحیتوں اور خوبیوں کے ساتھ شیخ صاحب عرب و عجم کےمشائخ تصوف سلوک سے فیض یافتہ تھے۔ شیخ العرب والعجم شاہ حکیم محمد اختر اور الشیخ عبدالحمید الکندح الحسنی الہاشمی الرفاعی سمیت کئی مشائخ سلوک و معرفت نے اپنی زندگی میں ہی تصوف و سلوک کی اہم ذمہ داری سے سرفراز کردیا تھا اور براہ راست اپنی خلافت سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ آپ  کے کئی مشائخ سے اکتسابِ فیض کیا، حضرت شیخ نے زندگی کے آخری ایام تک ان بزرگوں کے تعلیم سلوک و تصوف کی ترویج و اشاعت کی بلکہ اپنے مریدوں اور محبین کی ظاہری و باطنی اصلاح بھی فرماتے رہے ، خاکسار بھی حضرت کے مریدوں میں شامل ہے۔ حضرت شیخ کے دامن آغوش میں جاکر پتہ چلا کہ ہماری جھولی میں سوائے برق و بھاپ کے کچھ بھی نہیں۔ میرے لئے والدمحترم رحمہ اللہ کے وصال کے بعد حضرت کی سرپرستی اگر نہ ہوتی تو شاید میں ٹوٹ کر بکھرجاتا مگر شیخ کا مشفقانہ برتاؤ اور علم و حکمت سے بھری نصائح نے میری زندگی کو نیا موڑ دیا۔
آج استاذمحترمؒ ہمارے درمیان نہیں ہیں؛ لیکن آپ کی علم و حکمت و اور ”روحانیت“ سے عبارت ان کی حیاتِ بابرکات کے یہ روشن نقوش ان کے تلامذہ اور محبین و مخلصین کو صبر و ہمت، اور اَن تھک محنت  کے ساتھ کامیاب وبا مقصد زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ رہنمائی کرتے رہیں گے۔

حضرت شیخ گزشتہ چند سالوں سے  متعدد امراض سے نبرد آزما تھے اور عرصہٴ دراز سے ”شوگر“ کی بیماری سے بھی دو چار تھے۔ چند مہنوں پہلے ہی جگر کے سرطان کی تشخیص ہوئی جس کے بعد روبہ صحت نا ہوسکے۔ مورخہ 29 اپریل کی صبح یہ اندوہناک خبر ملی کہ علم و عرفان و حکمت کی وہ عظیم ہستی داعئ اجل کو لبیک کہتے ہوئے دنیا فانی سے ہمیشہ کے لئے رخصت فرماگئے۔

آپ ساری زندگی دین متین کی خدمت میں مصروف عمل رہے ، بے شمار علماء وطلبہ نے آپ سے اکتساب فیض کیا۔
آپ کی گفتگو ٹھوس، علمی دلالت پر مبنی اور آپ ساری زندگی اپنے اسلاف کیطرح عقائد اہلسنت کی ترجمانی فرمائی۔
آپ اتحاد امت کے داعی بھی تھے ۔ آپ کی وصال سے علمی و دینی حلقے ایک عظیم علمی تحقیقی شخصیت سے محروم ہو گئے:

وہی بزم ہے وہی دھوم ہے ،وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس میرے شیخ کی ،جو تہہِ مزار چلا گیا

Related Posts