شام میں عوام کی حالتِ زار، یومِ آزادی سے لے کر کورونا وائرس تک

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

شام میں مسلمانوں کی حالتِ زار، یومِ آزادی سے لے کر کورونا وائرس تک
شام میں مسلمانوں کی حالتِ زار، یومِ آزادی سے لے کر کورونا وائرس تک

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

عرب جمہوریہ شام  نے فرانس سے آج ہی کے روز یعنی 12 اپریل سن 1946ء کو آزادی حاصل کی جس کے بعد سے اب تک ملک میں قیامِ امن کیلئے حکومت اور عوام کی جدوجہد جاری ہے۔

شام میں مسلمان عوام کے حالاتِ زندگی انتہائی ابتر ہیں۔ فاقہ کشی، اشیائے ضروریہ اور ادویات کی شدید قلت ہے جبکہ طویل عرصے کی خانہ جنگی کے باعث ملک کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ 

شام کا جغرافیہ 

جغرافیائی اعتبار سے شام مغربی ایشیاء میں واقع ہے جہاں اس کی سرحدیں جنوب مغرب میں سمندر، مغرب اور شمال میں ترکی، مشرق میں عراق، جنوب میں اردن جبکہ جنوب مغرب میں اسرائیل سے ملتی ہیں۔

زمینی اعتبار سے شام زرخیز زمین، بلند و بالا پہاڑوں اور صحراؤں پر مشتمل سرزمین ہے جہاں فطرت کے خوبصورت نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

شام کے عوام 

شام میں متنوع اقوام اور رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں جن میں شامی عرب، کرد، ترکمانی، آرمینیائی، منڈیرین اور یونانی شامل ہیں۔

مذہبی اعتبار سے شام میں  مسلمان، عیسائی، ڈروز، اسماعیلی، سلفی، یازی اور یہودی بستے ہیں۔سب سے زیادہ یہاں عرب آباد ہیں اور مذہبی اعتبار سے مسلمانوں کی اکثریت ہے۔

حکومتی ڈھانچہ 

سرکاری حکومتی ڈھانچے کے اعتبار سے شام 14 ریاستوں یا صوبوں میں منقسم ہے جہاں الگ الگ گورنر راج نافذ ہے تاہم مرکزی حکومت تمام 14 ریاستوں پر حکمران ہے۔

شام کی 14 ریاستوں یا صوبوں کے نام الیپو، رقہ، السویدا، دمشق، دارا، دیر الزور، ہما، ہساکا، ہومز، ادلب، لتاکیا، قنطرا، رف اور تارتس ہیں۔یہ 14 صوبے 60 اضلاع میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ 

شام کا وفاقی دارالحکومت دمشق ہے ، اس کا رقبہ 1 لاکھ 85 ہزار 180 مربع کلومیٹر ہے جبکہ آبادی 2 کروڑ 25 لاکھ 15 ہزار 570 نفوس پر مشتمل ہے۔ 

شام کی مختصر تاریخ 

عثمانیہ سلطنت کے اختتام کے بعد شام مختصر فرانسیسی دورِ اقتدار کی رعایا بنا جبکہ جدید شامی ریاست 20ویں صدی عیسوی کے وسط میں قائم ہوئی۔

ریاستِ شام عثمانیہ نظامِ حکومت کے بعد جنم لینے والی سب سے بڑی عرب ریاست تھی جسے 24 اکتوبر 1945ء میں پارلیمانی جمہوریہ بنا دیا گیا تاہم فرانسیسی افواج نے اپریل 1946ء سے قبل شام کو نہ چھوڑا۔

سن 1949ء سے لے کر 1971ء تک شام مختلف متحارب گروہوں کا نشانہ بنا رہا جو ملک کے اندر اور باہر سے خانہ جنگی کا باعث بنتے رہے۔ سن 1958ء میں شام نے مصر سے الحاق کیا۔

مصر و شام کے الحاق سے متحدہ عرب جمہوریہ کے نام سے نئی ریاست بنی تاہم اسے 1961ء میں ختم کردیا گیا اور 1961ء کے اواخر میں ملک کو عرب جمہوریہ شام کا نام دیا گیا۔

بعد ازاں 1963ء سے 2011ء تک شام ہنگامی قانون کے تحت چلایا گیا جس کے تحت شام کے شہری بنیادی آئنی و انسانی حقوق کے تحفط سے محروم کر دئیے گئے۔

سن 2000ء میں بشار الاسد شام کے صدر بنے جبکہ اس سے قبل 1971ء سے 2000ء تک ان کے والد حافظ الاسد شام کے حکمران رہے۔

مارچ 2011ء میں شام پر مختلف ممالک کی افواج عسکری آپریشن کے نام پر گھس آئیں جس کے نتیجے میں شامی علاقے پر مختلف سیاسی قوتیں قابض ہو گئیں۔

سن 2016ء سے 2018ء تک شام عالمی امنِ عامہ کے انڈیکس میں جنگ کے باعث  آخری نمبر پر تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ تشدد شامی عوام پر کیا گیا۔

متعدد ممالک کی افواج اور خانہ جنگی نے ایک محتاط اندازے کے مطابق شام کے 5 لاکھ 70 ہزار افراد کی جان لے لی جبکہ 76 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے۔ 50 لاکھ افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے جس سے موجودہ دور میں شام کی آبادی کا تخمینہ لگانا مشکل ہوگیا ہے۔ 

کورونا وائرس اور شام 

خانہ جنگی کے باعث شام میں کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونےوالی حقیقی صورتحال کے متعلق بین الاقوامی میڈیا بھی لاعلم نظر آتا ہے۔

شام میں 83 فیصد لوگ غریب ہیں جن میں حکومتی اور باغی افراد دونوں شامل ہیں۔ اس خانہ جنگی کے دوران کورونا وائرس کی آمد موت کے اعلان سے کم نہیں ہے۔

کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے حکومت نے لاک ڈاؤن اور کرفیو نافذ کر رکھا ہے تاہم ہر روز لوگ گھنٹوں قطار میں لگ کر راشن کی تقسیم کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں۔

بعض جگہوں پر کھانے کے لیے عوام الناس لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں جبکہ کھانے کی تقسیم کے لیے آنے والے ٹرکوں کےساتھ لوٹ مار بھی عام ہو گئی ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق شام میں اب تک 25 افراد کے اجسام میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ 2 افراد جاں بحق ہوئے ہیں، تاہم یہ اعدادوشمار قابلِ اعتبار نظر نہیں آتے۔

اس  کی وجہ یہ ہے کہ شام جیسے ملک میں جہاں خانہ جنگی اور قتل و غارت عروج پر ہے، کورونا وائرس کے ٹیسٹ کون کرے گا اور وائرس کے تصدیق شدہ کیسز کی درست تعداد کیسے معلوم کی جاسکتی ہے؟

شام پر ظلم و ستم میں امریکا کا کردار

عرب جمہوریہ شام میں اِس وقت صورتحال مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین سے مختلف نہیں ہے، لوٹ مار، قتل و غارت اور ظلم و تشدد شامی عوام کا مقدر بن چکا ہے۔

عراق کے صدر صدام حسین نے کہا تھا کہ ایک روز عرب دنیا اس بات کا احساس کرے گی کہ امریکا دراصل مسلمانوں اور عربوں کا دشمن ہے۔ آج انہوں نے ہمیں مارا۔ عنقریب عربوں کا پورا خطہ ان کا نشانہ بنے گا۔

جو ہونا تھا، وہ ہو کر رہا۔ امریکا کی پشت پناہی میں متعدد ممالک کی افواج نے شام میں خانہ جنگی شروع کی جس کے نتیجے میں شام ایک تباہ حال اور لٹا پٹا ملک بن کر رہ گیا۔

مسلم امہ کو اتحاد کی ضرورت 

حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں عرب اور مسلمان ممالک کی خاطر خواہ تعداد کے باوجود شامی عوام پر کیے جانے والے ظلم و ستم کی کہیں داد رسی نہیں ہوتی۔

مسلم امہ کو شام کیلئے یک زبان ہو کر آواز بلند کرنا ہوگی۔ اقوامِ متحدہ، اسلامی تعاون کی تنظیم اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے پلیٹ فارمز سے  شام میں قیامِ امن کے لیے حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے۔ 

Related Posts