ائیرپورٹس اور موٹر ویز گروی رکھنے کی منظوری، کیا ماضی میں بھی کوئی اثاثہ رہن رکھا گیا ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Is this happening first time in Pakistan?

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وفاقی کابینہ نے قرض کے حصول کیلئے ائیرپورٹس اور موٹر ویز سمیت سرکاری اثاثے گروی رکھنے کی منظوری دے دی ہے،سرکاری اثاثے گروی رکھ کر دیگر اثاثوں کے مقابلے میں کم شرحِ سود پر قرض حاصل کیا جاسکے گا۔

وزارتِ خزانہ نے سکوک بانڈز کے اجراء کیلئے اسلام آباد پشاور موٹر وے، پنڈی بھٹیاں فیصل آباد موٹر وے اور اسلام آباد ایکسپریس ہائی وے گروی رکھنے کی تجویز دی تھی جو وفاقی کابینہ نے منظور کرلی۔ اجلاس کے دوران وفاقی کابینہ نے موٹر وے ایم 3 اور اسلام آباد چکوال موٹر وے گروی رکھنے کی منظوری دے دی۔ اسلام آباد ائیرپورٹ، ملتان ائیر پورٹ بھی گروی رکھنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

سکوک بانڈز
سکوک بانڈ ایک اسلامی بانڈ ہے اس میں سود نہیں ہوتا بلکہ منافع ہوتا ہے۔سکوک بانڈ وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک جاری کرتے ہیں، اسلامی بینک حکومت سے سکوک بانڈ خرید کے اس کے عوض حکومت کو رقم فراہم کر دیتے ہیں۔

سکوک بانڈ بینکوں کو بیچنے کے لیے صرف حکومت کی ضمانت نہیں چلتی بلکہ کاغذی طور پر کوئی پراپرٹی جس کی مالیت اتنی ہی ہو، اس کا نام دیا جاتا ہے لیکن یہ صرف سکوک کی شرط پوری کرنے کے لیے کیا جاتا ہے کیونکہ سکوک کی شرط ہوتی ہے کہ ضمانت اس چیز کی ہو جس کے عوض منافع آ رہا ہو۔

بانڈز کی اقسام میں سے ایک قسم انٹرنیشنل بانڈز ہے جس میں حکومت قرض دینے والے کو سود کی مد میں مخصوص رقم ادا کرنے کی آفر دیتی ہے اور اگر قرض کی رقم دینے والے کو یہ آفر منظور ہو تو وہ قرض دے کر بانڈز خرید لیتا ہے اور حکومت کو مطلوبہ رقم مل جاتی ہے، اس قسم کے بانڈز میں حکومت کی گارنٹی کافی ہوتی ہے اور سرمایہ کار حکومت پر اعتبار کر کے اپنا سرمایہ حکومت کے حوالے کر دیتے ہیں، لیکن اس میں سود شامل ہو جاتا ہے۔

اپوزیشن کی تنقید اورماضی کی حکومتیں
اپوزیشن کی جانب سے اثاثے گروی رکھنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے تاہم اگر دیکھا جائے تو ماضی میں بھی قومی اثاثے گروی رکھ کر قرض لیا جاتا رہا ہے۔سکوک بانڈز کے اجرا کا سلسلہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور میں شروع ہوا جس کے بعد آنے والی حکومتوں نے سکوک بانڈ جاری کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بھی اپنی وزارت کے دوران موٹروے سمیت دیگر قومی اثاثے گروی رکھ کر قرضہ لیا تھاتاہم اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ موٹروے قرض دینے والوں کی ملکیت ہو گئی ہے یا پیسے جمع ہونے والی رقم قومی خزانے کے بجائے قرض دینے والوں کے اکاؤنٹ میں جائے گی۔

ماضی میں کون کون سے اثاثے گروی رکھے گئے ؟
موجودہ حکومت نے موٹرویزگروی رکھنے کا فیصلہ کرکے کوئی نیاکام نہیں کیا بلکہ موٹر ویز اورایئرپورٹ اس سے قبل بھی قرضے لینے کیلئے رہن رکھے جاچکے ہیں، آئیے چند اثاثے گروی رکھنے کا جائزہ لیتے ہیں۔

1۔ 2006ء میں ایم ون،ایم فور، آئی ایم ڈی سی اور اوکاڑا بائی پاس کو لیز پر دیکراس سے 6 ارب روپے اکٹھے کیے گئے۔

2۔2014ء میں حافظ آباد-لاہور موٹروے سیکشن کو ایک ارب جبکہ فیصل آبادپنڈی بھٹیاں موٹروے سیکشن کو رہن رکھ کر49 ارب روپے لیے گئے۔

3۔پشاورتا فیصل آباد موٹر وے ، فیصل آبا دتا پنڈی بھٹیاں موٹر وے ، اسلام آباد تا پشاور موٹر وے اور اسلام آبا دتا لاہور موٹر وے پہلے بھی گروی رکھی جاچکی ہیں  ۔

4۔2006ءمیں اس وقت کی حکومت نے صرف 6ارب روپے قرضہ لینے کیلئے بیشتر نیشنل ہائی ویز اور بعض موٹر ویز کو رہن رکھنے کا فیصلہ کیا جن میں اسلام آباد پشاور موٹر وے ایم ون ، فیصل آباد ملتان موٹر وے ایم فور ، اسلام آباد مری اور مظفر آباد ، جیکب آبا د بائی پاس ، ڈیرہ غازی خان تا راجن پور ہائی وے ، اوکاڑہ بائی پاس اور دیگر منصوبے سیکورٹی پر رکھ دیے گئے ۔

5۔2013ءمیں حکومت نے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کو اسلامی بانڈز کی سیکورٹی کے طور پر استعمال کیا اور اس کی بنیاد پر 182ارب کے مزید قرضے حاصل کیے ۔

6۔ ہماری حکومتوں نے کراچی ایئر پورٹ کو صرف ایک بار ہی رہن نہیں رکھا بلکہ 2015ءمیں بھی اس ایئر پورٹ کے بدلے میں 117ارب روپے کا قرض حاصل کیا گیا ۔

7۔ 2014ءکے دوران حکومت نے موٹر وے کا حافظ آباد تا لاہور سیکشن اسلامی بانڈز کے بدلے مزید ایک ارب ڈالر لینے کیلئے استعمال کیا ۔

8۔جون 2014ءمیں حکومت وقت نے فیصل آباد تا پنڈی بھٹیاں موٹر وے ایم تھری کو رہن رکھ کر 49ارب روپے حاصل کیے۔
9۔ فروری 2016ءمیں بھی حکومت نے کراچی ایئرپورٹ کو رہن رکھ کرمقامی اور بین الاقوامی اداروں اور سرمایہ کاروں سے دو بار قرضے حاصل کیے ۔

10۔وفاقی کابینہ نے موٹر وے ایم 3 اور اسلام آباد چکوال موٹر وے ،اسلام آباد ائیرپورٹ، ملتان ائیر پورٹ گروی رکھوا کر 1800 ارب روپے کا قرض لینے کی منظوری دی ہے۔

Related Posts