عوام نے احتیاط سے کام نہ لیا تو پابندیاں بڑھانا پڑیں گی،اسد عمر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے سے کورونا کی چوتھی لہر جولائی میں آسکتی ہے، اسد عمر
ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے سے کورونا کی چوتھی لہر جولائی میں آسکتی ہے، اسد عمر

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد :وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے واضح کیا ہے کہ اگر عوام نے احتیاط سے کام نہ لیا تو شاید ہفتے یا دو ہفتے بعد مزید شعبے بند کرنے پڑیں اور پابندیاں بھی بڑھائی جاسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں پاکستان کے بچوں کی تعلیم کی بھی فکر ہے، اگر ایک جگہ پر 10 یا 20 ہزار لوگ جمع ہوں گے تو وباء کا پھیلاؤ بڑھے گا ۔

جمہوری نظام کا مطلب یہ نہیں ہے سیاسی لیڈرز عوام کو ایسا پیغام دیں جس سے عوام کی صحت اور روزگار خطرے میں پڑے،پی ڈی ایم والے ہماری نہیں سنتے تو اعتزاز احسن کی ہی سن لیں۔

این سی او سی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ این سی او سی میں ہماری ذمے داری یہ نہیں ہے کہ ہم پیچھے کی طرف دیکھیں کہ کیا ہو چکا ہے، ہماری اولین ذمے داری یہ ہے کہ ہم آگے دیکھیں۔

انہوں نے کہا کہ قوم کی صحت اور روزگار کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی ہے این سی او سی کو جس کے لیے ہم تمام ڈیٹا سائنس کا استعمال کرتی ہے اور ماہرین صحت ان کی رائے کو اہمیت دیتی ہے،ہم روزانہ کی بنیاد پر صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے آگے کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ سفارشات دیتے ہیں اور کچھ این سی سی کے لیے گزارشات کرتی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اکتوبر کے پہلے عشرے میں پوری دنیا تعریف کررہی تھی اور ہم باہر جاتا تھا تو لوگ مبارکباد دیتے تھے کہ مبارک ہو آپ نے کورونا پاکستان میں ختم کردیا اور ہر ایک کو بتانا پڑتا تھا کہ کم ہوا ہے، ختم نہیں ہوا۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت جو اعدادوشمار آنا شروع ہوئے اس پر ہم نے 12 اکتوبر کو این سی سی کے اجلاس کی درخواست کی جس میں سفارشات رکھیں کہ عوام کی جانب سے حفاظتی تدابیر اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ہمیں وباء کا پھیلاؤ بڑھتا ہوا نظر آ رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 12 اکتوبر کے ہفتے میں مثبت کیسز کی شرح صرف 2فیصد تھی جبکہ پچھلے ہفتے یہ 8.7فیصد ہو چکا تھا، یعنی چار گنا کا کا اضافہ ہو چکا ہے۔

اسد عمر نے بتایا کہ اس ہفتے یومیہ صرف 8 اموات ہو رہی تھیں اور ہمارے پچھلے چند دن میں اوسطاً 60 سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں جبکہ ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں اور آکسیجن پر موجود مریضوں میں چار گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہاکہ کسی بھی طرح سے دیکھ لیں کیسز میں چار گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، یہ صرف دو ماہ میں ہوا ہے اور یہ اس کے باوجود ہوا کہ ہم نے جو کچھ فیصلے کیے تھے ان پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے لیکن بدقسمتی عملدرآمد اس طریقے سے نطر نہیں آ رہا جس طریقے سے پہلی لہر میں نظر آیا تھا۔

انہوں نے بڑے بڑے فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تمام تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی چھٹیوں کا اعلان کردیا گیا اور پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جانے والے 5کروڑ بچوں کی نقل و حمل رک گئی اور اسی طریقے 20 لاکھ اساتذہ کا جانا بند ہو گیا جو ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔

انہوں نے کہاکہ اندر جو شادیاں ہو رہی تھیں ان پر پابندی لگا دی گئی، باہر کی شادیوں میں 300 کی حد رکھ دی گئی، اسی طرح ریسٹورنٹ میں بند کمروں میں کھانا کھانے پر پابندی لگا دی گئی اور یہ سارے تکلیف دہ فیصلے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان کے بچوں کی تعلیم کی بھی فکر ہے، ہمیں پتہ ہے کہ بہت سارے تعلیمی ادارے کم قیمت اور کم فیس چارج کر کے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں اور ان بندشوں سے ایسے تعلیمی اداروں کا بہت نقصان ہوا ہے۔

وزیر منصوبہ بندی و ترقی نے کہا کہ اسی طرح میرج ہالز، ریسٹورنٹس اور ہزاروں لوگ ہیں جن کی نوکریاں ان سے جڑی ہوئی ہیں، ان سب کو بھی معاشی پریشانی کا سامنا کرنا پڑالیکن ہمیں یہ مجبوری میں اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کہ اگر ہم ایک آدمی کی معاشی بندش کی وجہ سے 100 آدمیوں کی معاشی بندش کو روک سکیں تو یہ منطقی بات ہے کہ ہم یہ فیصلہ کریں۔

اس موقع پر انہوں نے لاک ڈاؤن اور پابندیوں سے متاثر ہونے والے شعبوں کے لیے ریلیف پیکیج کے اعلان کا عندیا بھی دیا۔

انہوں نے کہاکہ سب سے اہم فیصلہ عوامی اجتماعات میں 300 سے زائد افراد اکٹھے کرنے کی پابندی ہے، اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، اس کی وجہ سے ایک نقصان یہ ہو رہا ہے کہ براہ راست وبا پھیل رہی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر ایک جگہ پر 10 یا 20 ہزار لوگ جمع ہوں گے تو وبا کا پھیلاؤ بڑھے گا لیکن اس سے زیادہ خطرناک چیز یہ ہو رہی ہے کہ جب ملک کے لوگ اپنے لیڈرز کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ جلسہ کرنے سے کورونا بھاگ جائے گا۔

وباء کے پھیلاؤ کا اس سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو سیاسی بات کی جا رہی ہے کہ وبا پھیل رہی ہے اور اس کے نتیجے میں لوگ اپنی حفاظتی پر عمل کرنا کم کردیں تو یہ کہیں زیادہ بڑا نقصان ہے۔انہوں نے کہا کہ جلسہ تو ایک شہر میں ہووہا ہے جہاں 20 یا 30ہزار لوگ بیٹھے ہوئے ہیں لیکن جو لوگ گھر میں بیٹھے یہ پیغام سن رہے ہیں وہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں اور وہ سارے پاکستان میں پھیلے ہوئے لہٰذا جو پہلی لہر کے مقابلے میں سب سے بنیادی فرق نظر آ رہا ہے وہ یہی ہے کہ پیغام یکساں نہیں جا رہا۔

انہوں نے کہا کہ اقدامات پر فرق ہو سکتا ہے جو پچھلی لہر میں بھی تھا جس میں کوئی زیادہ چاہتا تھا، کوئی ذراکم چاہتا تھا لیکن پیغام ایک ہی تھا البتہ بدقسمتی سے وہ پیغام یکساں نہیں جا رہا۔

اسد عمر نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں سیکڑوں کی تعداد میں ڈاکٹرز، ہیلتھ کیئر ورکرز اور پیرا میڈکس خود کورونا کے مرض کا شکار ہو چکے ہیں اور وہ بھی عوام سے احتیاطی تدابیر کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ میڈیا بھی دوبارہ سے عوام سے احتیاط برتنے کی اپیل کررہا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں کورونا کے 2 ہزار 963 نئے کیسز رپورٹ، 60 مزید شہری جاں بحق

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ پاکستان دنیا ان کے چند اسلامی ممالک میں سے ایک ہے جہاں جمہوریت ہے لیکن یہ سارا نظام عوام کی زندگی کی بہتری اور ملک کی ترقی، خوشحالی اور امن کے لیے ہے، جمہوری نظام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سیاسی لیڈرز ایسے فیصلے کریں اور عوام کو ایسا پیغام دیں جس سے ملک کے عوام کی صحت اور روزگار خطرے میں پڑے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مجبوری میں چند شعبوں پر بندش لگانی پڑی ہے اور اگر ابھی بھی ہم بہتر فیصلے نہیں کریں گے اور پوری قوم یکجا ہو کر اس بات کا دوبارہ اعادہ نہیں کرے گی کہ جس طریقے سے پہلی لہر میں تمام قوم نے مل کر باہمی تعاون کے ساتھ اس وباء کے پھیلاؤ کو روکنے میں کردار ادا کیا تھا، اگر ہم ابھی بھی یہ نہیں کریں گے تو شاید ہفتے، دو ہفتے کے بعد ایسی صورتحال پیدا ہو کہ ہمارے پاس کو چوائس ہی نہ رہ جائے اور ہمیں مزید سیکٹرز پر بندش لگانی پڑے۔

Related Posts