میڈیا اخلاقیات ، جھوٹ اور دھوکہ دہی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

میڈیا اخلاقیات ، جھوٹ اور دھوکہ دہی
میڈیا اخلاقیات ، جھوٹ اور دھوکہ دہی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پرنسس آف ویلز لیڈی ڈیانا نے 1995 میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو ایک سنسی خیز انٹرویو میں شہزادہ چارلس کے کفریہ نظریات اور ناخوشگوار شادی کی وجوہات کا انکشاف کیا تھا۔ انٹرویو کے دو سال بعد اگست 1997 کو لیڈی ڈیانا لندن کی ایک سڑک پر کار حادثے میں ہلاک ہوگئیں تھی۔

25 سال سے زیادہ کے بعد ، برطانوی حکومت نے ایک تحقیقات کمیشن قائم کیا جو اس بات کی انکوائری کی ہے کہ صحافی مارٹن بشر نے لیڈیا ڈیانا کا انٹرویو کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جان ڈیسن کے ذریعہ کرائی گئی انکوائری میں پتہ چلا ہے کہ صحافی نے ’دھوکہ دہی کا رویہ‘ استعمال کیا تھا جس سے ادارتی ہدایات کی خلاف ورزی ہوئی تھی۔

زیر نظر ٹیلی ویژن انٹرویو وہ دھماکہ خیز انٹرویو تھا جس نے برطانوی بادشاہت کی تاریخ پر کئی ایک سوالات کھڑے کردیے تھے۔ شہزادی ڈیانا نے اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ شہزادہ چارلس اور کمیلا پارکر کے خفیہ تعلقات ہیں۔ لیڈی ڈیانا کی فوتیگی کے بعد کی تاریخ نے ثابت کردیا جب کمیلا پارکر نے شہزادہ چارلس سے شادی کرلی تھی۔

بی بی سی کے میزبان مارٹن بشر نے لیڈی ڈیانا کا انٹرویو کرنے کے لیے اور ان کے بھائی ارل اسپینسر کو راضی کرنے کے لئے جعلی بینک دستاویزات کا استعمال کیا تھا، میڈیا نے اُس سنسنی خیز اور انکشافات سے بھرپور انٹرویو کے لیے لیڈی ڈیانا کے خاندان کو بھاری رقم کی ادائیگی کی تھی۔

گذشتہ ہفتے بی بی سی کو چھوڑ کر جانے والے صحافی مارٹن بشر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ میرا لیڈی ڈیانا سے انٹرویو کرنا ان کو دھوکہ دینا نہیں تھا بلکہ صحافی ذمے داری سمجھتے ہوئے انٹرویو کیا تھا۔ اور میرا شہزادی ڈیانا کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں تھا، تاہم ان کی موت کے بعد ہونے والے واقعات جو میڈیا کے زینت بنے میں ان کا ذمے دار نہیں ہوں۔

سپریم کورٹ کے جج کی انکوائری میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ مارٹن بشر نے لیڈی ڈیانا کو انٹرویو کیسے کیا اور بار بار اپنے مالکان سے جھوٹ بھی بولا۔ تاہم بی بی سی بھی اس کے واقعات کے ورژن کی صحیح جانچ پڑتال کرنے میں ناکام رہا اور اس بارے میں حقائق چھپائے کہ بشیر نے انٹرویو کس طرح لیا تھا۔

مارٹن بشیر نے اس ماہ کے شروع میں بی بی سی سے استعفیٰ دے دیا تھا، انکوائری رپورٹ شائع ہونے سے ٹھیک پہلے۔ انہوں نے جعلی دستاویزات پر معذرت کرلی تھی، لیکن کہا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ اس نے ڈیانا کو انٹرویو دینے پر آمادہ کیا۔ اس رپورٹ میں ڈیانا اور بشیر سے متعلق ایک نوٹ بھی لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مارٹن بشر کو اس انٹرویو پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔

میڈیا اخلاقیات

سپریم کورٹ کے جج کی تحقیقات میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ بی بی سی کے نمائندے نے صحافتی اقدار اور اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر انٹرویو کیا تھا۔ اس انٹرویو  کو 20 ملین سے زیادہ لوگوں نے دیکھا مگر اس کا مقصد صرف ادارے کی ریٹنگ بڑھانا تھا۔

صحافت سے جڑے لوگوں کے لیے اخلاقیات کے بہت سارے معاملات ہیں جن پر انٹرویو سے پہلے ، دوران اور اس کے بعد عمل کرنا چاہئے۔ یہ ضروری ہے کہ انٹرویو کے طریقہ کار تحریری شکل طے کیا جائے، اور انٹرویو لینے سے قبل انٹرویو کرنے والوں کو واضح طور پر سمجھایا جائے۔

انٹرویو کرنے والے صحافیوں کو جن سے وہ انٹرویو کررہےہیں ان کو مقام سے متعلق بتانا چاہیے اور متبادل جگہ کے حوالے سے پیش بندی کرکے رکھنی چاہیے۔ اور جس دن انٹرویو کیا جانا اس کے مقام اور تفصیلات کو دوسروں سے شیئر کرنے سے گریز کیا جائے۔

رازداری انٹرویو کا ایک اہم حصہ ہے ۔ عمومی طور پر انٹرویو کرنے والوں کا نام نہیں لیا جانا چاہئے جب تک ان کی مرضی شامل نہیں ہو جاتی۔ یہ صرف اس صورت میں کیا جانا چاہئے جب زیربحث تحقیق کی جستجو کے لئے کوئی نام ضروری ہو۔

کسی بھی ریکارڈ شدہ ٹیپ یا تحریری شکل میں انٹرویو لیا گیا انٹرویو اس وقت تک نہ چلایا جائے جب تک انٹرویو دینے والے کی خواہش اس میں شامل نہیں ہو جاتی ۔

اگر ممکن ہو تو ، انٹرویو دینے والوں کو تحریری طور پر اپنی منظوری دینی چاہئے اور اگر یہ ممکن نہیں ہے تو وضاحت ضرور دی جانی چاہئے، تاہم اگر اس انٹرویو کو آن ایئر کرنے اور عوام کے لیے شائع کرنا ضروری ہے تو انٹرویو دینے والے سے اجازت ضرور طلب کی جائے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صحافی اپنی اخلاقی ذمے داری کو پورا کررہے ہیں اور وہ اپنی اخلاقی ذمے داری سے بخوبی آگاہ ہیں؟ پاکستان میں ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک صحافی ایک شخص کی کرپشن کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو تھپڑ بھی رسید کررہے ہیں۔

کیا صحافیوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار ہے؟ اگر میڈیا اخلاقیات پر عمل نہیں کرے گا تو پھر ہمارا میڈیا کس جگہ کھڑا ہے؟

Related Posts