می ٹو مہم میشا شفیع کے بعد

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

می ٹو مہم کی چھتر چھایہ تلے پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے دو معروف ناموں میشا شفیع اور علی ظفر کے کیس نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے۔ کیس میں علی ظفر پر الزام ہے کہ انہوں نے میشا شفیع اور 8 دیگر افراد کو جنسی طور پر ہراساں کیا۔ آج معاشرہ اور معروف شخصیات دو حصوں میں منقسم نظر آتے ہیں جن میں سے ایک تو صرف اچھے انسان کی حمایت کرتا ہے جس پر غلط الزام لگایا گیا جبکہ دوسرا ایک طاقتور خاتون کے پیچھے کھڑا ہے جبکہ ہر گزرتے روز کے ساتھ سچائی دھندلاتی چلی جاتی ہے کیونکہ می ٹو مہم میں متاثرہ شخصیات اور ملزمان بدلتے رہتے ہیں۔

یہ واقعہ کم و بیش 2 سال قبل شروع ہوا جب 9 اپریل 2018ء کو میشا شفیع نامی گلوکارہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں گلوکار و اداکار علی ظفر پر سرِ عام الزام لگایا کہ انہوں نے خاتون کو جنسی بنیادوں پر 1 سے زائد بار ہراساں کیا۔

جب علی ظفر نے یہ الزام مسترد کیا تو میشا شفیع نے نام نہاد انصاف کے حصول کیلئے قانونی راستہ اپنایا۔ تاہم، ان کی شکایت پر صوبائی محغتسب اور گورنر پنجاب نے کوئی کارروائی نہیں کی کیونکہ متاثرہ خاتون (میشا شفیع) کا ملزم (علی ظفر) سے کوئی روزگار کا رشتہ نہیں تھا۔ نتیجتاً یہ معاملہ اپنے آپ کو ثابت نہ کر پایا کیونکہ یہ شکایت کام کی جگہوں پر تحفظِ خواتین برخلاف ہراسگئ خواتین ایکٹ 2010ء کے تحت درج کرائی گئی تھی۔ علی ظفر کے خلاف میشا شفیع کی توہینِ عدالت کی درخواست پر بھی سیشن کورٹ نے علی ظفر کے ہتکِ عزت کے دعوے کے فیصلے تک عمل درآمد روک دیا تھا۔

دوسری جانب علی ظفر نے ہتکِ عزت کیس کے تحت میشا شفیع پر 1 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ کیا کیونکہ شکایت کنندہ (علی ظفر) کے مطابق میشا شفیع نے می ٹو مہم کے تحت جو دعویٰ کیا تھا، اُس کے باعث علی ظفر اور اس کے خاندان کی ساکھ متاثر ہوئی اور انہیں شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ الزامات کے باعث علی ظفر کی عوامی تصویر کو بھی بے حد نقصان پہنچا۔علی ظفر کی درج کرائی گئی شکایت (ایف آئی آر) میں کہا گیا کہ علی ظفر کو بدنام کرنے کیلئے میشا شفیع سے منسلک جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے۔ علی ظفر کی درخواست میں نامزد ملزمان کو متعدد مواقع پر طلب کیا گیا لیکن وہ سائبر کرائم ونگ کے سامنے پیش ہونے میں ناکام رہے جس پر ونگ کو ان کے خلاف قانونی کارروائی علم میں لانی پڑی۔ میشا شفیع جنسی ہراسانی کے الزامات کی تصدیق کیلئے کوئی گواہ بھی پیش کرنے سے قاصر رہیں۔ اگرچہ حتمی فیصلے آنا ابھی باقی ہے، تاہم تازہ ترین صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ قانون علی ظفر کے حق میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا علی ظفر قصور وار ہے؟ کیا میشا شفیع نے عوام الناس سے اور قانون سے جھوٹ بولا؟ کیا می ٹو مہم کی سازشیں ختم نہ ہونے والی اور بے بنیاد ہیں؟ کچھ بھی ہو، لیکن ایک بات واضح ہے کہ مہم کے نتائج دور رس ہیں جو آج بھی متحرک نظر آتی ہے۔

بلاشبہ ہالی ووڈ فلم پروڈیوسر ہاروے ونسٹن کے خلاف جنسی استحصال کے الزامات سامنے آنے پر امریکا میں می ٹو نامی مہم شروع ہوئی جس نے دُنیا بھر میں جنسی استحصال کا شکار خواتین کو اپنے بنیادی انسانی حق یعنی انصاف کے حصول کیلئے آواز اٹھانے کی ترغیب دی۔ دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی خواتین کھل کر جنسی استحصال کے خلاف آواز اٹھانے اور اپنے ساتھ بد سلوکی یا جنسی ہراسگی کرنے والے افراد کا نام بیان کرنے لگیں۔ تاہم یہ بات واضح ہونے کے باوجود دھندلی ہی رہی کیونکہ جنسی استحصال کے ملزمان کو کوئی سزا نہ دی جاسکی اور بدنامی کا بوجھ ڈھونے والے بھی بدل گئے۔ استحصال کرنے والے مرد اخلاق باختہ شخصیات تھے، نہ کہ خواتین۔ متاثرین بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں بے شک تبدیلی کی توقع تھی لیکن میشا شفیع کی لمبے چوڑھے عروج و زوال کی قانونی لڑائی نے ایک بار پھر پاکستان جیسے مرد نواز معاشرے کا کھل کر مذاق اڑایا جو خواتین کو بے اختیار سمجھتا ہے۔

غور کیجئے تو میشا شفیع جیسی مشہور شخصیت قانونی ماہرین کی ایک ٹیم کے ساتھ 2 سال میں بھی انصاف حاصل نہ کرسکی تو عام خواتین کا کیا حال ہوگا؟ جنسی ہراسانی یا بد سلوکی کے بارے میں بات کرنا جرم بنا دیا جاتا ہے جس سے ملنے والا پیغام واضح ہے کہ آپ کے آگے بڑھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ شرمناک سلوک کو راز رکھنے کی بجائے بیان کرنا مزید شرمندگی کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ بات قبول کی جانی چاہئے کہ ہر عورت علی ظفر کے حامی (خواتین و حضرات) کی طرف سے ردِ عمل کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ شاید میشا شفیع اپنے اور علی ظفر کے درمیان ہونے والے جنسی ہراسگی کے معاملے کو واضح طور پر بیان نہ کرسکیں۔ جھوٹا، دھوکے باز، خود غرض اور دیگر مہذب الفاظ ان کے کیس کیلئے استعمال ہوسکتے تھے۔ مددگار نامی قومی ہیلپ لائن کے مطابق پاکستان بھر میں 93 فیصد خواتین جنسی تشدد کا شکار ہیں۔

یہاں یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ خواتین می ٹو مہم کا غلط استعمال کرسکتی ہیں اور یقیناً خواتین نے ایسا کیا بھی ہے لیکن خواتین کے ایسے جھوٹ مردوں کے سچ کے پہاڑ کے سامنے رائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علی ظفر کو میشا شفیع جنسی ہراسگی کیس کے باعث جس نفرت کا سامنا کرنا پڑا، وہ یقیناً اس کے مستحق نہیں ہیں اگر میشا شفیع نے صرف شر پسندی کی غرض سے یہ سارا پروپیگنڈہ تشکیل دیا ہو۔ کسی بھی بے گناہ پر جنسی شکاری کا لیبل لگا کر اسے تھپڑ نہیں مارنا چاہئے۔ پھر بھی، اگر عدالتیں میشا شفیع کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتی ہیں تو اس سے جنسی ہراسگی کی حقیقی شکار ہر خآتون کا کیس کمزور ہوگا اور جنسی ہراسگی کے الزام پر کوئی یقین نہیں کرے گا جو کسی طاقتور مجرم مرد کے خلاف بات کرے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ انصاف ایک بھاری بھرکم پتھر بن کر رہ جائے گا جسے اٹھانا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہوگی۔ 

Related Posts