کشمیر کامسئلہ صرف اظہار یکجہتی سے ہی حل نہیں ہوگا، ڈاکٹر جمیل احمد خان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ambassador Jamil Ahmad Khan

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مملکت خداداد پاکستان کو رب کائنات نے اپنی تمام تر نعمتوں کے ساتھ ساتھ ایسی بیشمار نامور شخصیات سے بھی نوازا ہے جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں مقام حاصل کیا ،ان میں سے ایک ڈاکٹر جمیل احمد خان ہیں جنہوں نے پاک فوج سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور اپنی محنت، لگن اور اپنی خدادادصلاحیت کی بناء پر پولیس کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان رہنے کے علاوہ مختلف ممالک میں پاکستان کیلئے بطور سفیر خدمات انجام دینے بعد کے اقوام متحدہ کے سفیر کی حیثیت سے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔

ایم ایم نیوز نے ڈاکٹر جمیل احمد خان سے ان کی ذات، پاکستان اور عالمی صورتحال کے حوالے سے گفتگو کا اہتمام کیا جس کا احوال پیش خدمت ہے۔

ایم ایم نیوز :سپہ گری سے سفارت کاری تک کا سفر کیسا رہا ؟

ڈاکٹر جمیل احمد خان : سپہ گری سے سفارتکاری تک ایک طویل سفر تھا، یہ میری زندگی کی پوری داستان ہے، کالج میں دوران تعلیم مجھے فوج میں جانے کا شوق تھا، ولولہ انگیز اور کٹھن سے گزر کر فوج میں کمیشن حاصل کیا اور 6 سال تک بطور کپتان پاک فوج کیلئے خدمات انجام دینے کے بعد حکومت کی طرف سے پاک فوج کے بہترین کپتانوں کو فیڈرل سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے سول سروسز جوائن کرنیکا موقع دیا گیا۔

سی ایس ایس کا امتحان دینے کے بعد میری خواہش فارن سروس تھی لیکن اس وقت ڈی ایم جی یعنی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور پولیس کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان تھا  تاہم مجھے پولیس میں خدمات انجام دینے کیلئے چناگیا جو کہ اس وقت ایک ٹاپ لیول کی سروس تھی۔

جس ملک میں پولیس کی کوئی پذیرائی نہ ہو ، جس ملک میں پولیس کو وقار کی نظر سے نہ دیکھا جاتا ہو وہاں کراچی، حیدرآباد، ٹھٹھہ، گوجرانوالہ، اسلام آباد اور پشاور جیسے شہروں میں پولیس کی سربراہی کرنا ایک مشکل کام تھا لیکن یہاں میں  نے دیکھا کہ جہاں کانسیٹبل سے لیکر آئی جی کو بھی لوگ شکوک کی نگاہ سے دیکھتے ہوں تووہاں بھی اگر لیڈر شپ اچھی ہو تو آپ اپنا مقام بناسکتے ہیں۔میں نے اپنے دفتر کے دروازے عوام کیلئے کھول دیئے جس کے بعد لوگوں کا اعتماد پولیس پر بڑھ گیااور ہم نے دیکھا کہ اس اقدام کے بعد لوگ باقاعدہ جھولیاں اٹھا کر دعائیں دیتے تھے۔

ایم ایم نیوز :فوج، پولیس اور سفارتکاری کے دوران ذاتی زندگی میں کیا بدلاؤ آیا ؟

ڈاکٹر جمیل احمد خان : زندگی ارتقاء کا نام ہے، ارتقائی مراحل زندگی میں آپ کو آگے بڑھانے اور اگر آپ کی سمت درست نہیں تو پیچھے لیجانے کا سبب بنتے ہیں، زندگی میں ٹھوکریں بھی ہیں، کامیابی بھی ہے، ناکامی بھی ہے۔فوج ایک بہت ہی منظم ادارہ ہے جبکہ سول اداروں میں کئی مسائل ہوتے ہیں لیکن بطور پولیس افسر سیاستدانوں سے جھگڑے بھی رہے، جب پولیس سیاست زدہ اور سیاست کرائم زدہ ہوجائے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہوتا ہے۔مسائل کے حل کیلئے آواز اٹھانے اور چٹان کی طرح کھڑے ہونے میں کی وجہ سے مجھے کئی مشکلات کا سامنا رہا لیکن میں قانون کی پاسداری کے عزم پر کاربند رہتے ہوئے آگے بڑھتا گیا جس کے بعد راستے کھلتے گئے جبکہ سفارتکاری کے دوران محسوس ہوا کہ ایک سفارتکار اپنے ملک کیلئے کیا خدمات انجام دے سکتا ہے اور اپنوں سے دور پردیس میں رہنے والوں کی کیا خدمت کرسکتا ہے۔

ایم ایم نیوز :ایسا کام جس پر ہمیشہ فخر محسوس ہوتا ہے ؟

ڈاکٹر جمیل احمد خان : پاک فوج میں اوپن میرٹ پر جوانوں کا چناؤ ہوتا ہے ، میرا فو ج کا کوئی خاندانی پس منظر نہیں تھا میں پہلا شخص تھا جس نے فوج میں کمیشن حاصل کیا جبکہ فوج میں دوران خدمات سعودی عرب کیلئے انتخاب کے بعد سعودیہ کی فوج کی نمائندگی کے علاوہ لیبیا اور متحدہ عرب امارات میں بطور سفیر کئے جانیوالے اقدامات پر بہت فخر محسوس ہوتا ہے۔

ایم ایم نیوز :ایسا ناقابل فراموش واقعہ جس نے آپ کی ذات کو متاثر کیا ہو ؟

ڈاکٹر جمیل احمد خان : لیبیا کے صدر معمر قذافی سے ملاقات انتہائی مشکل امر ہوتا تھا، ان کا اسٹاف ملاقات کی خواہش رکھنے والوں کو کئی جگہوں پر گھمانے کے بعد کسی پراسرار خیمے میں ان سے ملاقات کرواتا تھا تو ایک بار صدر پاکستان کے دورہ لیبیا کے موقع پر صدر معمر قذافی سے ملاقات میں مشکل درپیش آئی تو میں نے لیبیائی صدر کے ایک معتمد کو اعتماد میں لیا کیونکہ لیبیا میں بطور سفیر میں نے ایک اچھی ساکھ قائم کرلی تھی تو میری درخواست پر انہوں نے ہمیں براہ راست معمر قذافی سے ملاقات کا اہتمام کیا جس میں پاکستان اور لیبیا کے درمیان فوجی سازو سامان کے معاہدوں میں پہلی بار ٹینکوں کی فراہمی کا بھی معاہدہ طے پایا یہ ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے ۔

پولیس میں دوران خدمات میں ڈاکوؤں کے بیوی بچوں کی مدد کرتا تھا اور حکومت سے بھی ان لوگوں کی فلاح کیلئے سفارش کرتا تھا تو جب حیدر آباد میں اس وقت جرائم اپنے عروج پر تھے، ڈاکوؤں نے ایک ایس ایس پی کو بھی شہید کردیا تھا تو اس کے چند روز بعد میں اپنی ٹیم کے ہمراہ حیدرآباد کے جنگلات میں سرچ آپریشن کررہا تھا لیکن ڈاکوؤں نے مجھ پر فائرنگ نہیں کی تو بعد از گرفتاری جب ہم نے ایک ڈاکو سے اس حوالے سے سوال کیا تو اس نے بتایا کہ آپ اور آپ کے ساتھی ہمارے نشانے پر تھے لیکن ہمارے ساتھیوں نے بتایا کہ آپ  نے کبھی کوئی جھوٹا مقابلہ نہیں کروایا اور آپ نے ہمارے بیوی بچوں کی مدد کی ہے جس کی وجہ سے ہم نے آپ پر فائرنگ نہیں کی۔

ایم ایم نیوز :اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا اور کیا مختلف تھا ؟

ڈاکٹر جمیل احمد خان :اقوام متحدہ دنیا کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے جہاں دنیا کے 152 ممالک کے لوگ کام کرتے ہیں، میں دنیا کے جن بھی ممالک میں رہا وہاں 50 سے 60 ممالک کے افسران سے تعلقات اور کام کرنا ایک الگ تجربہ تھا لیکن اقوام متحدہ میں اقوام عالم سے روابط استوار کرنا اور ایک دائرہ میں رہ کر اپنی بات منوانے کا فن سیکھا اور اقوام متحدہ میں لابنگ کیسے کی جاتی ہے اور کیسے اپنے موقف کیلئے دوسرے ممالک کو قائل کیا جاتا ہے یہ سب کچھ میں نے اقوام متحدہ میں رہ کر سیکھا ، اس لحاظ سے اقوام متحدہ کا تجربہ سب سے منفرد اور سود مند رہا۔

ایم ایم نیوز :پاکستان کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں خدمات انجام دیں، کونسا شہر پسند ہے اور کیوں ؟

ڈاکٹر جمیل احمد خان : امریکا، مشرقی تیمور، کینیا، صومالیہ، یمن ، مسقط ، اومان میں خدمات انجام دیں لیکن کام اور رہنے کے اعتبار سے مجھے یمن کا شہر صنعاء بہت پسند آیا، یہاں کے لوگ پاکستانیوں کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، یمن کے لوگ ہمیشہ مسکرا کر ملتے ہیں اورانتہائی منکسر المزاج اور بھروسہ مند لوگ ہیں، یہاں اگر آپ دروازہ کھول کر بھی کہیں چلے جائیں تو آپ کے گھر میں چوری نہیں ہوگی اور موسم انتہائی خوبصورت ہوتا ہے اور یہاں قبائل کا ماحول بہت الگ ہے جبکہ یہاں کے سرداروں کے ساتھ کام کرکے بہت اچھا لگا۔

یمن میں قبائلی سردارن کی ایماء کو لوگوں کو اغواء بھی کیا جاتا تھا لیکن اس کا مقصد تاوان نہیں بلکہ اپنی حکومت سے اپنے مطالبات منوانا ہوتا تھا اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یہاں مغویوں کو مہمانوں کی طرح رکھا جاتا تھا ایک اور بار ایک جرمن جوڑا جسے ماضی میں اغواء کیا گیا تھا وہ دوسری بار خود اغواء کاروں کے پاس مہمان بن کر آئے کیونکہ قبائلی سرداران نے کبھی مغویوں سے زیادتی نہیں کی۔

ایم ایم نیوز :سی پیک کی کامیابی کیلئے ملک اور خطے میں کیا اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ؟

ڈاکٹر جمیل احمد خان : سی پیک دنیا کے بیلٹ اینڈ روڈ کا ایک اہم حصہ ہے ، اس منصوبے کی وجہ سے چین کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا کیونکہ چین کو بحری جہازوں کے ذریعے آمد ورفت میں کئی روز لگتے ہیں خاص طور پر تیل کی ترسیل میں کئی دن لگ جاتے ہیں لیکن اس منصوبے سے چین کو تیل اور دیگر ساز و سامان کی برآمدات و درآمدات میں کافی سہولت میسر آئیگی جبکہ پاکستان کیلئے سی پیک گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے، ہمیں اپنی افرادی قوت کو مختلف شعبوں میں خدمات کیلئے تیار کرنا ہوگا کیونکہ اگر مقامی لوگ ہنر مند نہیں ہونگے تو دیگر ممالک سے لوگوں کو لایا جائیگا جس کی وجہ سے بلوچستان کے لوگوں میں احساس محرومی بڑھ جائیگا۔

ایم ایم نیوز :امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی کی اصل وجہ کیا ہے ؟

ڈاکٹر جمیل احمد خان :امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی کی اصل وجہ چین کی معاشی ترقی ہے، چین کی معیشت کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے، چین اس وقت 125 ممالک کے ساتھ منسلک ہے اور چین کی معیشت کی ترقی کی وجہ سے اثر و رسوخ بھی بڑھ رہا ہے جس کو بچانے کیلئے چین اپنی عسکری قوت میں اضافہ کررہا ہے جبکہ امریکا عسکری قوت کے اعتبار سے پہلے نمبر پر ہے لیکن معیشت میں امریکا اب تھوڑا پیچھے چلا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکا چین کی معیشت کو سبوتاژ کرنے کیلئے کوشش کررہا ہے اور لداخ میں بھارت کی اشتعال انگیز ی کے پیچھے بھی یہی سازش کار فرما تھی۔امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی کا سبب معیشت ہی ہے ۔

ایم ایم نیوز :موجودہ حکومت نے سفارتی محاذ پر کس حد تک کامیابی حاصل کی ؟

ڈاکٹر جمیل احمد خان : ہمارے تینوں اطراف بھارت، ایران اور افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت زیادہ کشیدگی تھے لیکن اس وقت اگر ہم دیکھیں تو افغانستان اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہت زیادہ بہتر ی آئی ہے ،کشمیر کے مسئلے پر موجودہ حکومت نے بہت زیادہ آواز اٹھائی ہے جس کی وجہ سے آج دنیا بھر میں بھارت کو تنقید کا سامنا ہے تو اس لحاظ سے حکومت کی کاوشیں جاری ہے جبکہ بنگلہ دیش سے تعلقات میں بہتری آرہی ہے اگر بنگلہ دیش سے تعلقات بہتر ہوجاتے ہیں تو پاکستان کو آئیسولیٹ کرنے کے خواب دیکھنے والا بھارت خود آئیسولیٹ ہوجائیگا۔

ایم ایم نیوز :ترکی میں تاریخی آیا صوفیہ عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے سے عالمی سطح پر کیا ردعمل آسکتا ہے ؟

ڈاکٹر جمیل احمد خان : آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے پر عالمی سطح پرشدید تنقید کی جارہی ہے، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو، جوبائیڈن اور دنیا کے کئی ممالک سے اس اقدام کے حوالے سے آوازیں اٹھ رہی ہیں ، یونیسکو کے کی طرف سے اثاثہ قرار دی گئی عمارت کی ہیئت تبدیل کرنے کیلئے کچھ قانونی لوازمات تھے جن کو پورا نہیں کیا گیا ۔

اس وقت دنیا میں انتہائی حساسیت پائی جاتی ہے لیکن آیا صوفیہ کو خرید کر چرچ سے تبدیل کرنے کی وجہ سے مسیحیوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں  اٹھایا جبکہ امریکا میں تک آج بھی ایک گرجا ایسا ہے جہاں مسلمانوں کو جمعہ کی نماز کی اجازت دی جاتی ہے تاہم اقوام عالم کی طرف سے دباؤ ڈالا جاسکتا ہے لیکن اس کا کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔

ایم ایم نیوز :کشمیر کی موجودہ صورتحال میں حکومت کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں ؟

ڈاکٹر جمیل احمد خان :کشمیر کے معاملے میں حکومت کو پوری دنیا میں اپنے سفارتخانوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے،عمران خان کی جنرل اسمبلی تقریر کے بعد صورتحال تبدیل ہوچکی ہے، وزیراعظم عمران خان کشمیر کے معاملے پر سنجیدہ ہیں لیکن سفارتخانے اس طرح اقدامات نہیں کررہے ۔5 اگست کو یوم استحصال منانے کا اعلان تو خوش آئند ہے لیکن اب صرف یکجہتی کرنے سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا بلکہ حکومت کو اس مسئلے کے حل کیلئے عملی اقدامات کرنا ہونگے۔

Related Posts