اگر والدین ساتھ دیں تو خواجہ سراء پاکستان کے وزیرِ اعظم بن سکتے ہیں۔جنت علی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اگر والدین ساتھ دیں تو خواجہ سراء پاکستان کے وزیرِ اعظم بن سکتے ہیں۔جنت علی
اگر والدین ساتھ دیں تو خواجہ سراء پاکستان کے وزیرِ اعظم بن سکتے ہیں۔جنت علی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

خواجہ سراء جنت علی نے کہا ہے کہ اگر والدین ساتھ دیں تو نہ صرف خواجہ سراء پارلیمنٹ میں جاسکتے ہیں بلکہ ملک کے وزیرِ اعظم بھی بن سکتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان میں جہاں خواجہ سراؤں کی بڑی تعداد ناچ گانے اور بھیک مانگنے میں مشغول ہے، وہیں کئی خواجہ سرا ایسے بھی ہیں جو اپنی کمیونٹی کی خدمات اور صلاحتیوں کی بدولت دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی خواجہ سراء جنت علی بھی اس کی ایک عمدہ مثال ہیں۔

جنت علی نے کہا ہے کہ اگر والدین دھتکارنے اور نفرت کرنے کی بجائے ہماری انگلی پکڑیں توخواجہ سراء بھی تمام شعبوں میں اپنا نام پیداکرسکتے ہیں، خواجہ سرا پارلیمنٹ میں جاسکتے ہیں اورملک کے وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں۔ جنت علی نے بتایا کہ انہوں نے ایچ آر اور مارکیٹنگ میں ایم بی اے کیا ہے اوراپنی یونیورسٹی کی گولڈمیڈلسٹ ہیں۔

اب تک جنت علی 26 ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کرچکی ہیں جبکہ سال 2002ء میں انہیں ایشیاء ہیروایوارڈ کیلئے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ متعدد ڈراموں اورایک فلم میں کام کررہی ہیں اورایک آرٹسٹ بھی ہیں۔ جنت علی کہتی ہیں وہ خود کو آرٹی ویسٹ سمجھتی ہیں یعنی ایسا شخص جو اپنے آرٹ کے ذریعے معاشرے کی خدمت کرناچاہتا ہے۔

قبل ازیں جنت علی اس پارلیمانی کمیٹی کی پرائیویٹ ممبربھی رہیں جس کی کوششوں سے خواجہ سراؤں کی علیحدہ شناخت کا قانون منظور ہوا تاہم صرف قانون سازی ہی کافی نہیں۔اصل بات اس پرعمل درآمد ہے۔ تمام صوبوں کو اس قانون پرعمل درآمدکے لئے رولزآف بزنس بنانے تھے جو تاحال نہیں بن سکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ رولزآف بزنس نہ ہونے کی وجہ سے خواجہ سراؤں کوقانون سازی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہورہا۔ جن خواجہ سراؤں کے قومی شناختی کارڈ پرجنس مردیا عورت لکھا ہے وہ خواجہ سراؤں کے حقوق حاصل نہیں کرسکتے اوراگرقومی شناختی کارڈ پرخواجہ سراء لکھ دیاجائے تو پھر وہ حج اورعمرہ نہیں کرسکتے۔

اسی طرح اسکول اورکالج کے جن سرٹیفیکیٹس پر جنس لڑکا یا لڑکی لکھی جاتی ہے وہ اسناد ضائع ہوجاتی ہیں۔ جنت علی نے کہا کہ خواجہ سراؤں سے متعلق ہمارے خاندان اورمعاشرے کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔اگرکوئی فنکار رقص کرے یا گیت گائے تواسے آرٹسٹ کہتے ہیں لیکن خواجہ سراؤں کو ناچنے گانے والے کہاجاتا ہے۔

 قانون سازی اور جنت علی جیسی سوشل ورکرزکی کوششوں سے خواجہ سراء برادری میں شعور پیدا ہوا اور اب انہیں معلوم ہے کہ اگران کے ساتھ کوئی ظلم وزیادتی ہوتی ہے تو کہاں جانا ہے اور کس جگہ شکایت درج کروانی ہے۔ اب ان کی پشت پر پڑھی لکھی خواجہ سراء اورقانون موجود ہے۔

سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز کے حوالے سے جنت علی کہتی ہیں خواجہ سراؤں کی غیراخلاقی ویڈیوز جوسوشل میڈیا پرشیئرکی جاتی ہیں، ان میں اکثر جعلی ہوتی ہیں یا پھر وہ بھارتی خواجہ سراؤں کی ہوتی ہیں جبکہ خواجہ سراؤں میں گروکا درجہ ماں باپ جیسا ہے وہ خود گروہیں اوران کے متعدد چیلے ہیں۔

 گرواورچیلے کے تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے جنت علی نے کہا کہ اب اس تعلق میں تبدیلی آئی ہے۔ ہم اپنی شاگردوں کو پڑھا لکھا کرمختلف شعبوں میں بھیج رہی ہیں۔ خواجہ سراء وکیل بھی بن رہے ہیں اور فلموں اورڈراموں میں بھی کام کررہے ہیں۔ میڈیا اورپی آرکے شعبوں میں بھی ہیں۔اسی طرح فیشن ڈیزائنگ اورکوکنگ کے شعبے میں بھی خواجہ سراء اپنی صلاحیتوں کے جوہردکھارہے ہیں۔

مجھے سب سے زیادہ دکھ اس وقت ہوتا ہے جب میرے خاندان اورکمیونٹی کے لوگ مجھ سے آنکھیں پھیرلیتے ہیں۔ جن بہن بھائیوں کیلئے ہم سب کچھ کرتے ہیں، جب ان بہن بھائیوں کی شادی بیاہ اورخوشی کا کوئی وقت آتا ہے ، جب ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا وقت آتا ہے تووہ نگاہیں پھیرلیتے ہیں۔اس سے دل دکھتا ہے۔

آخر میں مستقبل کے منصوبوں سے متعلق جنت علی نے کہا کہ میں مستقبل میں پی ایچ ڈی کروں گی تاکہ پاکستان کی سب سے پڑھی لکھی خواجہ سراء بن کر ملک کا نام روشن کرسکوں۔ 

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں ٹریفک وارڈن کی بیٹی پاک فضائیہ کی جی ڈی پائلٹ بن گئی

Related Posts