تحریکِ انصاف کی جیل بھرو تحریک، عمران خان کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عمران خان نے بدھ سے ”جیل بھرو“ تحریک کا اعلان کردیا
عمران خان نے بدھ سے ”جیل بھرو“ تحریک کا اعلان کردیا

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے تحریکِ انصاف کی طرف سے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا اور بعد ازاں پی ٹی آئی کی جانب سے تحریک کا باضابطہ شیڈول بھی جاری کیا گیا۔

ملک کی سیاسی تاریخ میں تحریکِ انصاف کو اگر ٹوئسٹ پارٹی قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اس سے قبل تمام تر سیاست یا تو پیپلز پارٹی یا پھر ن لیگ کے اردگرد گھوم رہی تھی۔

باری باری کبھی نواز شریف تو کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن جاتی تھیں اور جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا تو ان کی جگہ سابق صدر آصف زرداری اور موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے سنبھالی۔

تاہم نئی سیاسی جماعت کے روحِ رواں عمران خان اس قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان ہیں جس نے 1992 میں ملک کو ورلڈ کپ جیتنے کا اعزاز دلایا اور آج بھی پوری پاکستانی قوم اسے اس لیے یاد رکھے ہوئے ہے کیونکہ اس کے بعد ملک کبھی ورلڈ کپ جیت ہی نہ سکا۔

جیل بھرو تحریک سے پہلے گرفتاریاں

جب سے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف برسرِ اقتدار آئے اور پی ڈی ایم حکومت جس پر ن لیگ کا رنگ غالب ہے، نے اقتدار سنبھالا تو پی ٹی آئی قائدین کی عدالتوں میں حاضریاں لگنا شروع ہوگئیں۔

جب حاضریوں سے پی ٹی آئی کے یہ قائدین زیادہ دبتے دکھائی نہ دئیے تو ن لیگ نے یہ وطیرہ اپنایا کہ ان کو گرفتار کر لو تو یکے بعد دیگرے کبھی شہباز گل، کبھی سینیٹر اعظم سواتی ، کبھی شیخ رشید تو کبھی فواد چوہدری کو گرفتار کیا گیا۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تحریکِ انصاف جیل خالی کرو تحریک کا آغاز کرتی اور جتنے بھی رہنما گرفتار ہوئے یا مزید کیے جانے کی تیاریاں کی جارہی تھیں، انہیں روکا جاتا کیونکہ سیاستدانوں کا میدان پارلیمنٹ ہوتی ہے، جیل نہیں۔

لیکن تحریکِ انصاف نے ٹوئسٹ راہ اپناتے ہوئے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا جس کا باضابطہ شیڈول جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ سب سے پہلے گرفتاری عمران خان دیں گے، 22فروری سے یکم مارچ تک ہر روز 200کارکنان گرفتار ہوں گے۔

شیڈول اور جیل بھرو تحریک کا آغاز

کہا گیا کہ پشاور سے پی ٹی آئی کارکنان 23 فروری کو گرفتاریاں دے دیں گے۔ پھر 24 فروری کو راولپنڈی، 25 کو ملتان، 26 کو گوجرانوالہ جبکہ 27کو سرگودھا سے گرفتاریاں ہوں گی۔

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں جیل بھرو تحریک کو سول نافرمانی سے بھی عبارت کیاجاتا ہے اور بعد ازاں پاکستان اور بھارت معرضِ وجود میں آجانے کے بعد ان دونوں ممالک میں الگ الگ جیل بھرو تحریکیں بھی مختلف مواقع پر چلائی گئیں۔

ماضی کی تحریکیں

سن 60 کی دہائی میں جنرل ایوب خان کے خلاف طلبہ نے جیل بھرو تحریک چلائی۔ 2013 میں خود عمران خان نے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پر جیل بھرو تحریک چلائی۔

ٹی ایل پی (تحریکِ لبیک پاکستان) نے بھی جیل بھرو تحریک چلائی تھی۔ 2017 میں پرتشدد احتجاج کے دوران ٹی ایل پی سربراہ کی گرفتاری پر ملک بھر میں ہڑتال کی گئی اور جیل بھرو تحریک بھی چلی۔ گویا بے شمار سیاستدان جیل بھرو تحریک کو اپنے مطالبات منوانے کا اہم حربہ سمجھتے ہیں۔

اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے نائب چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے لاہور میں گرفتاری دے دی جبکہ اسد عمر، اعظم سواتی اور عمر سرفراز چیمہ نے بھی گرفتاری دے دی۔

تمام تر صورتحال کے تناظر میں یہ واضح نہیں کہ حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، تاہم سیاسی شخصیات کی رسہ کشی کے باعث ملک کے معاشی مسائل اور عوامی مسائل کے حل کی تلاش کہیں دب کر رہ گئی ہے۔

Related Posts