جہانگیر ترین گروپ کے نئے سیاسی داؤپیچ، کیا عمران خان 5سال وزیراعظم رہ سکیں گے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جہانگیر ترین گروپ کے نئے سیاسی داؤپیچ، کیا عمران خان 5سال وزیراعظم رہ سکیں گے؟
جہانگیر ترین گروپ کے نئے سیاسی داؤپیچ، کیا عمران خان 5سال وزیراعظم رہ سکیں گے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

گزشتہ روز پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر، زیرک اور سینئر سیاستدان جہانگیر ترین کے ہم خیال گروپ کیلئے قومی اور پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈرز کا اعلان کرکے ملک کے سیاسی مستقبل سے متعلق ایک نئی بحث چھیڑ دی گئی۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے جہانگیر ترین کے اس سیاسی حربے پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور دیگر حکام سے رپورٹ طلب کر لی کہ ہم خیال گروپ کس حیثیت سے پارلیمانی لیڈرز مقرر کرسکتا ہے؟ کیونکہ کسی بھی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر مقرر کرنے کا اختیار سیاسی پارٹی کو تو ہوسکتا ہے، اراکینِ اسمبلی کے گروہ کو نہیں۔

تحریکِ انصاف میں واضح طور پر 2 دھڑے بن چکے ہیں جن میں سے ایک جہانگیر ترین جبکہ دوسرا وزیرِ اعظم عمران خان کا ساتھ دیتا نظر آتا ہے۔ آئیے اِس سوال پر غور کرتے ہیں کہ کیا عمران خان 5 سال تک وزیرِ اعظم رہ سکیں گے؟

جہانگیر ترین کا ہم خیال گروپ اور حلف برداری کی تقریب

پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین نے اپنی رہائش گاہ پر ہم خیال اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں 31 اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی شریک ہوئے۔

گروپ کا باضابطہ نام جہانگیر ترین ہم خیال گروپ رکھ دیا گیا اور ہم خیال اراکینِ اسمبلی سے باضابطہ طور پر حلف بھی لیا گیا۔ قومی اسمبلی میں راجہ ریاض جبکہ پنجاب اسمبلی میں سعید اکبر کو گروپ کا پارلیمانی لیڈر بنایا گیا۔

منگل کے روز ہونے والے اجلاس میں جہانگیر ترین کی قیادت میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ہم خیال گروپ پنجاب اسمبلی کے رواں اجلاس میں جمعے کو پاور شو بھی کرے گا، جس سے حکومت کو یہ دکھانا مقصود ہے کہ کتنے اراکینِ اسمبلی جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ 

فارورڈ بلاک کی تردید 

خود جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی میں دھڑے بندی یا کسی بھی فارورڈ بلاک کی موجودگی کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم تحریکِ انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔ فارورڈ بلاک کا تصور غلط ہے۔ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں۔

تحریکِ انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے کہا کہ الگ گروپ ہر پارٹی میں ہوتے ہیں۔ ہم آئینی حق سے بات کریں گے۔ گروپ کے تمام فیصلے انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہوں گے۔

وزیرِ اعظم سے اظہارِ یکجہتی

جب کسی سیاسی جماعت میں دو دھڑے نظر آنے لگتے ہیں تو پارٹی چیئرمین اپنے اہم سیاسی رہنماؤں اور کارکنان سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ تم کس کے ساتھ ہو؟ اس سے پہلے کہ وزیرِ اعظم یہ سوال پوچھتے، وفاقی وزراء اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے خود ہی ان سے یکجہتی کا اظہار شروع کردیا۔

وزیرِ خزانہ حماد اظہر، وزیرِ موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل وزیر، وزیرِ منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر، وزیرِ بحری امور علی زیدی سمیت دیگر وفاقی وزراء اور اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کے علاوہ پارٹی رہنما بھی اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں شامل ہیں۔

اظہارِ یکجہتی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

کسی بھی سیاسی جماعت کے ٹکٹ سے الیکشن لڑ کر رکنِ قومی و صوبائی اسمبلی یا وفاقی وزیر منتخب ہونے والے سیاسی رہنماؤں کی پوری زندگی اس سیاسی جماعت کیلئے وقف ہوتی ہے اور یہ حقیقت کہہ کر بیان کرنا ایک معنی خیز رجحان ہے۔

پوری قوم جانتی ہے کہ وفاقی وزراء وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، پھر یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دراصل ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ وزیرِ اعظم کو یقین دلایاجاسکے کہ ہم جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ نہیں، آپ کے ساتھ ہیں۔

یہی نہیں، بلکہ آج کے ٹوئٹر کے ٹاپ ٹرینڈز اٹھا کر دیکھ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ جہانگیر خان ترین ایک طرف ہے اور عمران خان دوسری طرف۔ دونوں گروہوں کے ٹاپ ٹرینڈز کے تحت ہزاروں ٹوئٹر پیغامات ارسال کیے جاچکے ہیں۔ 

شاہ محمود قریشی کا اظہارِ خیال

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کوہتھکنڈے اپنانے کی ضرورت نہیں ہے، عمران خان ان کے لیڈر ہیں تو اعتماد کریں، اعتماد نہیں ہے تو پی ٹی آئی میں رہنے کی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان نہ ہوتے تو یہ لوگ اسمبلیوں تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اگر انہیں لیڈر مانتے ہیں تو ان کے فیصلوں پر آمادگی ظاہر کرنا بھی ضروری ہے۔ وزیرِ اعظم کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے جبکہ یہ وقت حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ہے۔ 

Related Posts