سانحہ مری: کیا صرف حکومت ذمہ دارہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Is only government responsible for murree tragedy?

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مری میں برف کے طوفان کے دوران گاڑیوں میں جاں بحق ہونیوالوں کی تعداد 24کے قریب پہنچ چکی ہے، ملکہ کوہسار مری پاکستان کے شمال میں ایک مشہور اور خوبصورت سیاحتی و تفریحی مقام ہے۔ مری اسلام آباد سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔

مری کی خوبصورتی
مری کا سفر سر سبز پہاڑوں، گھنے جنگلات اور دوڑتے رقص کرتے بادلوں کے حسیں نظاروں سے بھرپور ہے۔ گرمیوں میں سر سبز اور سردیوں میں سفید رہنے والے مری کے پہاڑ سیاحوں کے لیے بہت کشش کاباعث ہیں۔

مری میں مشہور تجارتی مراکز اور کثیر تعداد میں ہوٹل قائم ہیں۔ مال روڈ سے نیچے مری کے رہائشی علاقے اور بازار ہیں۔ خشک میوہ جات اور سامان آرائش کی متعدد دکانیں موجود ہیں جن سے خریداری کی جاسکتی ہے۔ سیاح سیکڑوں میل دور یہاں مختلف موسموں کے دوران برفباری اور تفریحی مقامات کا لطف اٹھانے کیلئے آتے ہیں۔

مری کو پاکستان کا اہم سیاحتی مقام سمجھا جاتا ہے اور پورے ملک سے لوگ یہاں سیر و تفریح کیلئے آتے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے برف کے ایک طوفان کی وجہ سے مری میں افسوسناک صورتحال سامنے آئی جب لوگوں کو اپنی گاڑیوں میں شب بسری کی وجہ سے اپنی قیمتوں زندگیوں سے محروم ہونا پڑا تاہم اس سے زیادہ افسوس مری میں ہونیوالے غیر انسانی رویوں پر ہے۔

سانحہ مری
جب سیاحوں کے سیل فونز کی بیٹریاں ، خوراک اورجسموں میں طاقت ختم ہوچکی تھی تومری میں راتوں رات ہوٹلوں کے کمروں کے کرائے چالیس سے پچاس ہزار کردیئے گئے ،گاڑیوں کو دھکا لگانے ،گاڑیوں کے ٹائروں میں زنجیریں ڈالنے والے کیلئے بھاری رقوم طلب کی جاتی رہیں۔

مری سے موصول ہونیوالی اطلاعات کے مطابق جب معصوم بچے بھوک سے بلک رہے تھے وہیں کچھ نسلی بھوکے اُبلا ہوا ایک انڈا 500روپے میں بیچ رہے تھے۔ چائے کی ایک پیالی 500روپے،50 روپے والی پارکنگ کے 1000، 2000، کال کوٹھڑی نما ایک کمرے کے جو عام حالات میں 2000 تک مل جاتا ہے ، 25سے 50ہزارتک وصول کئے جارہے تھے۔

مری کی قیامت خیز رات میں بغیر ہیٹر اور گرم پانی کے ایک کمرے کا 20 ہزار کرایہ ،ساتھ ہی اگلے روز 12بجے کمرہ خالی کرنے کا حکم بھی ساتھ دیا گیا تاہم اگلے روز اسی ہوٹل میں اسی کمرے کا ریٹ 50 ہزار لگایا گیا۔

اموات کی وجہ
سانحہ مری میں اموات کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ زوردار برف باری میں گاڑیاں پھنس گئیں توسب گاڑیوں میں ہیٹر چل رہے تھے، ٹریفک جام تھا، سب نے سوچا ہیٹر چلا کر گاڑی میں ہی رات گزاری جائے،جس گاڑی کو یہ سب محفوظ سمجھ رہے تھے وہی گاڑی گیس چیمبر بن گئی۔

برف باری کے باعث گاڑیوں کے سائیلنسریعنی گیس کا ایگزٹ سوراخ بند ہونے سے گاڑیوں میں کاربن مونو آکسائیڈ بھر گئی جبکہ گاڑی میں موجود زندگی کے خواہاں لوگ سانس کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ نکال رہے تھے ۔گاڑیوں کے شیشے بند تھے ۔آکسیجن کی آمد کا کوئی راستہ نہ تھا۔ سفر کی تھکاوٹ سے بہت سے لوگ سو گئے ،پھر کاربن مونو آکسائیڈ نے سب کو موت کی نیند سلا دیا۔

حکومت کاکردار
سانحہ مری سے دو روز قبل وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری فخر سے اطلاع دے رہے تھے کہ پاکستان کی معیشت سدھر گئی ہے اور ایک لاکھ گاڑیوں کے مری داخل ہونے کی اطلاعات بھی وزیر موصوف نے ہی فراہم کی تھیں لیکن شہری یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا حکومت کا کام صرف گاڑیاں گننا تھا؟ جب بڑی تعداد میں لوگ مری میں داخل ہورہے تھے تو انتظامیہ نے ان کیلئے انتظامات کیوں نہیں کئے اور جب برف کے طوفان کی پیشگی اطلاعات مل چکی تھیں تو سیاحوں کو روکا کیوں  نہیں  گیا؟

شہری وزیراعظم عمران خان سے بھی سوال کررہے ہیں جو کوریا میں کشتی ڈوبنے پر وزیراعظم کے استعفے کی مثالیں دیا کرتے تھے ،وہ بھی اسلام آباد سے چند کلومیٹرکی دوری پر موت کے رقص کو نہ دیکھ سکے اور اب ذمہ داری لینے کے بجائے مرنے والوں کو ہی ذمہ دار قرار دیکر خود کو بری الزمہ قراردیدیا ہے۔

ہوٹل مالکان کا رویہ
مری میں اموات کا ذمہ دار کوئی ایک انسان نہیں ہے بلکہ حکومت، انتظامیہ اور مرنے والے خود اپنی موت کے ذمہ دار ہیں بلکہ ہم بھی کہیں نہ کہیں ان اموات کی وجہ ضرور ہیں کیونکہ یہ تو رپورٹس آگئیں کہ اموات گاڑیوں میں زہریلی گیس کی وجہ سے ہوئیں لیکن اس کا تعین نہیں کیا جارہا ہے کہ لوگ گاڑیوں میں شب بسری پر مجبور کیوں ہوئے۔

سانحہ کے بعد بچ کر واپس آنے والوں کا کہنا ہے کہ ہوٹل والوں نے گاڑیوں سے نکل کر آنے والوں کو اندر نہیں گھسنے دیا۔ یہاں تک کہ خواتین کو واش روم بھی استعمال نہیں کرنے دیا، خواتین جن مقامی گھروں میں واش روم کے لئے گئیں ،وہاں سے بھی سختی کے ساتھ واپس کردیا گیا۔ کسی ہوٹل والے نے فرمایا کہ ہمارے پاس کمرے سب فل ہیں مگر ہیٹر سینکنے کے فی گھنٹہ پانچ ہزار لیں گے۔

7ہزار والا کمرہ 25سے 30ہزار میں دستیاب تھا ۔حتیٰ کہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جاں بحق افراد کی گاڑیوں سے سامان تک چوری کیاگیا ۔ مری میں سیاحوں سے زیادتی کوئی نئی بات نہیں بلکہ کسی بھی سیاحتی مقام پر سب سے زیادہ لوٹ مار ہوتی ہے ۔تویہ مری ہے اور انسانی بے حسی پر آواز اٹھانے والوں کو مری کے مافیا ملکر مارتے پیٹتے ہیں جس پر ہر سال مری کے بائیکاٹ کی بھی مہمات چلائی جاتی ہیں لیکن شہری پھر لٹنے کیلئے مری کا رخ کر لیتے ہیں۔

جہاں تک مری میں اموات کی ذمہ داری کا تعلق ہے تو اس کے ذمہ دار مرنے والے خود بھی ہیں کیونکہ جب برف کے طوفان کی پیشگوئی ہوچکی تھی تو چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر موت کے منہ میں جانا کوئی عقل مندی نہیں تھی اور اہم بات تو یہ ہے کہ مری میں بڑی تعداد میں اموات کے باوجود سیکڑوں سیاح آج بھی مری جانے کے خواہشمند ہیں جنہیں انتظامیہ نے روک دیا ہے۔

ہماری ذمہ داری
یہ درست ہے کہ قدرت کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا اور قدرتی آفات کو روکنا ممکن نہیں ہے لیکن سانحہ مری میں ہونیوالی اموات قدرت نہیں بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کا نتیجہ تھیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، کورونا وائرس کی وباء جب پاکستان آئی تو 5روپے کا سرجیکل ماسک 20 سے 50 روپے تک فروخت ہوا ۔ یہاں خوراک ہو یا ادویات ،ضرورت پڑنے پرہرچیز کے دام بڑھا دینے کی روش عام ہے۔

ایک طرف حکومت ملک میں سیاحت کے فروغ کیلئے کوشاں ہے تو دوسری طرف مری جیسے سانحات ملک میں سیاحت کی حوصلہ شکنی کیلئے ایک عبرت ناک مثال بن سکتے ہیں،ہمارے ملک میں کوئی مشکل وقت ہو تو اس میں ایک دوسرے کے دست وبازو بننے کے بجائے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

دنیا میں ریسکیو کا مطلب انسانوں کی جان بچانا ہوتا ہے ہمارے ہاں لاشیں اٹھانے کو کہا جاتا ہے ،یہ ضروری نہیں کہ ہر کام حکومت کو کرنا ہے بلکہ ہمیں خود بھی ذمہ داری لینا ہوگی اور غیر انسانی رویوں پر غور کرنا ہوگا کیونکہ سانحہ مری کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں تو ہم خود بھی ہیں۔

Related Posts