آئی ایم ایف کا گرداب اور مہنگائی کا طوفان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مملکتِ خداداد پاکستان کا 1947ء میں قیام کسی معجزےسے کم نہیں تھا کیونکہ مسلمانوں کیلئے انگریزوں کی غلامی کے بعد ہندوؤں کی غلامی کا پھندا تیار تھا بلکہ مسلمان قوم تو خود اس پھندے کیلئے طویل عرصے سے تیار بھی تھی لیکن بھلا ہو قائدِ اعظم محمد علی جناح اور اس وقت کے کچھ دور اندیش مسلمان قائدین کا جس کی بدولت مسلمانانِ ہند کو احساس ہوا کہ اگر ہندو قوم کے ہتھے چڑھ گئے تو صورتحال انگریزوں کے مقابلے میں بد تر بھی ہوسکتی ہے، جیسا کہ اب بھارت کے مسلمانو ں اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کا حال ہمارے سامنے ہے۔

کہتے ہیں غلامی وہ نہیں ہوتی جو نظرآئے بلکہ وہ ہوتی ہے جو اپنے احکامات پر چلائے بھی اور فریاد بھی نہ کرنے دے۔ مسلمانوں کو انگریزوں یا ہندوؤں کی غلامی قبول نہیں تھی اور جنہیں ہندوؤں کی غلامی سمجھ میں نہ آئی ، انہوں نے بھارت میں رہنے کا فیصلہ کیا اور ان میں سے آج بھی بہت سے لوگ تذبذب میں گھرے اور مجبوری کو اپنا مقدر سمجھتے نظرآتے ہیں ، لیکن بھارت میں ہندوتوا کے نام پر جو شدت پسند گروہ اٹھے ہیں، انہوں نے مسلمانوں کی زندگی وقت کے ساتھ ساتھ اجیرن کرکے رکھ دی ہے ۔ گجرات یونیورسٹی میں چند دن قبل ماہِ رمضان کے دوران پیش آنے والا حملے کا واقعہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔

غلامی کی دوسری قسم معاشی ہے جس میں آج کل پاکستان جکڑا ہوا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے گلے میں یہ غلامی کا پھندا کس نے ڈالا؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ 1958ء میں فیروز خان نون کی حکومت نے آئی ایم ایف سے پہلی بار 3کروڑ 10 لاکھ ڈالرز کا قرض لیا جس کے بعد قرض واپس کرکے آئی ایم ایف سے مکمل طور پر جان چھڑانے کے دعوے تو بہت سی حکومتوں نے کیے لیکن شاذ و نادر ہی کوئی حکومت اس میں کامیاب ہوئی اور اگر ہوئی بھی تو بعد میں آنے والوں نے اس حکومت کی پالیسیاں ملیا میٹ کردیں۔

بدھ کے روز 20مارچ 2024ء کو بھی چشمِ فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اسٹاف لیول معاہدہ اتنی برق رفتاری سے ہوا کہ سابق نگران اور عمران خان دور کے حکمران منہ دیکھتے رہ گئے کہ کیا کوئی وزیرِ خزانہ اتنا طاقتور بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے حلف اٹھانے کے 9ویں روز ہی پاکستان آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوجائے جس نے موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ معاہدہ کرنے والی وفاقی حکومت کو ناکوں چنے چبوا دئیے تھے جبکہ موجودہ وفاقی کابینہ نے 11مارچ کو حلف اٹھایا تھا جس میں وزیرخزانہ محمد اورنگزیب شامل تھے۔

اسٹاف لیول معاہدہ ہونے کے موقعے پر آئی ایم ایف کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ معاہدہ ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے جس کے تحت پاکستان 1 ارب 10 کروڑ ڈالرز کی آخری قسط حاصل کرسکے گا۔ قسط ملنے پر پاکستان کا 3 ارب ڈالرز کا اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ ختم ہوجائے گا۔ پہلے جائزے کے بعد کے مہینوں میں پاکستان کی معاشی ومالی حالت بہتر ہوئی، بااعتماد پالیسی مینجمنٹ کی پشت پر ترقی اور اعتماد کی بحالی جاری رہی۔ رقوم کی بحالی میں بہتری آئی، رواں برس معاشی ترقی معمول پر رہنے کی توقع اور افراطِ زر ہدف سے کافی زائد رہے گی۔

آئی ایم ایف کا مزید فرمانا تھا کہ ” پاکستان اقتصادی کمزوریوں سے نمٹنا چاہتا ہے تو جاری پالیسی میں اصلاحات ضروری ہیں، حکومت مسائل کے مستقل حل کیلئے وسط مدتی فنڈ پروگرام میں دلچسپی ظاہر کرچکی ہے۔ وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف اہداف پر بروقت عمل کیا، پاکستان ادارہ جاتی اصلاحات اور ملکی معیشت مستحکم بنانے کیلئے اقدامات کرچکا ہے جبکہ نئے پروگرام کا مقصد اقتصادی بحالی کو مضبوط و مستحکم بنانا اور مضبوط و پائیدار بنیادیں فراہم کرنا ہے۔ “یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ قرض منظور تو ہوگیا ، لیکن شرائط کیا ہیں؟ کیا اب مہنگائی کا طوفان تھم جائے گا؟

تاریخ شاہد ہے کہ جن 26 ممالک کی مخدوش معیشت کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف نے قرض دیا، اس میں ایسے سخت اقدامات کی شرائط موجود تھیں کہ جن کی وجہ سے ان حکومتوں کو بنیادی خدمات (Essential Services)مہیا کرنا مشکل ہوگیا جس کے سبب لوگ مہنگائی کو برداشت نہ کرسکے اور سڑکوں پر نکل آئے۔ آئی ایم ایف کی تقریباً 36 شرائط جو کہ ابتدائی طور پر رکھی گئی تھیں، پاکستان نے کافی حد تک مان لیں اور بقایا شرائط ماننے کے بعد غریب لوگوں کی کمر مزید ٹوٹ جائے گی، کیونکہ زیادہ تر اصلاحات کے باعث بالواسطہ (Indirect) ٹیکسز میں اضافہ ہوتا ہے جس کا بوجھ صرف غریب طبقے (Vulnerable Class) پر پڑتا ہے کیونکہ اشیائے ضروریہ کی ہر چیز پر سیلز ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسز عائد کر دئیے جاتے ہیں۔

وفاقی حکومت آئی ایم ایف کو نان فائلرز کی جانب سے جائیداد کی خریدوفروخت پر ٹیکس میں اضافے کی یقین دہانی کروا چکی ہے۔ تمام ہاؤسنگ سوسائٹیز کو رجسٹرڈ کیا جائے گا، جائیداد کی خریداری بینک کے ذریعے لازمی قرار دینا بھی زیرِ غور ہے۔ آئی ایم ایف مشن نے پاکستان پر سستی گیس کی فراہمی ختم کرنے پر زور دیا تھا۔ اگلے مرحلے میں پاکستان آئی ایم ایف سے 8ارب ڈالرز کے نئے بیل آؤٹ پیکیج کی باضابطہ درخواست کرنے والا ہے جس سے ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں استحکام آنے کی توقع کی جارہی ہے۔

زرِ مبادلہ ذخائر میں استحکام کی بات کی جائے تو سرکاری روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں گزشتہ 42 ماہ میں 7ارب 47 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز جمع ہوئے۔ ستمبر 2020 سے رواں سال فروری کے دوران روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کی تعداد 6 لاکھ 68 ہزار 701 تک جا پہنچی ہے۔ گزشتہ ماہ فروری کے دوران بھی سمندر پار پاکستانیوں نے 8 ہزار 895 روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کھلوائے اور فروری میں ان اکاؤنٹس میں 14 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز جمع کرائے گئے، جس سے معاشی حالات کی بہتری کی توقع بھی کی جاسکتی ہے۔

دوسری جانب حکومت کی طرف سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے ، گیس مہنگی کرنے کے متعلق یقین دہانی کی بات پہلے ہی ہوچکی اور یہ کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ بجلی اور گیس مہنگی ہونے سے یا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے (جو فی الحال نہیں ہورہا، لیکن یہ ”رکاوٹ“ عارضی ہی کہی جاسکتی ہے) دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافے کا سفر جاری و ساری رہنے کا خدشہ ہے۔ تو دراصل آئی ایم ایف سے معاہدہ حکومت اور کاروباری برادری بالخصوص سرمایہ کاروں کیلئے تو خوشی کی بات ہوسکتی ہے کیونکہ زرِ مبادلہ ذخائر میں کچھ وقت کیلئے ہی سہی، استحکام ضرور آئے گا لیکن عام آدمی کیلئے مہنگائی میں ہونے والا اضافہ روکنا موجودہ حکومت کیلئے وقت کی ضرورت بن چکا ہے اور اس کیلئے لازم ہے کہ حکومت اپنے اللے تللوں کو چھوڑ کر اپنے آپ کو عوام کے سامنے مثال بنا کر پیش کرے جس میں سرکاری ملکیت میں چلائے جانے والے اداروں کی جانب سے ہونے والا 1.4کھرب کا خسارہ ختم کرنے سمیت دیگر اہم اقدامات شامل ہیں۔

Related Posts