پاکستان کی اقتصادی ترقی بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی،سردار مسعود خان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کی اقتصادی ترقی بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی،سردار مسعود خان
پاکستان کی اقتصادی ترقی بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی،سردار مسعود خان

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد:صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ چین دوسرے ممالک کی زمین پر قبضہ کر کے اسے اپنی کالونی بنانے کے نظریہ پر یقین نہیں رکھتا ہے۔ چین اور پاکستان بااعتماد دوست ہیں اور دونوں ممالک اپنے عوام کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے لئے شعوری فیصلے کر رہے ہیں۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے سے کچھ ممالک خاص طور پر بھارت کو اس لئے تکلیف ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان میں اقتصادی خوشحالی آئے گی جو بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے۔

صدر آزادکشمیر نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ میگا منصوبے کے چھ ذیلی منصوبوں میں سے ایک ہے جس کی معاشی اور اسٹرٹیجک اہمیت دونوں ممالک پر واضح ہے۔

چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ دنیا کے مختلف ممالک اور براعظموں کو باہم مربوط کرے گا اور یہ حالیہ تاریخ کا ایک ایسا منصوبہ ہے جس کا کوئی ثانی نہیں اور اس منصوبے کو دنیا کے کئی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔

سردار مسعود خان نے کہا کہ 62بلین ڈالر مالیت کے اس منصوبے میں ابتدا میں بحری اڈوں کی تعمیر، توانائی پیدا کرنے اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے منصوبے شامل تھے جس میں بعد میں سماجی اور اقتصادی ترقی کے کئی اور منصوبے شامل کر کے اسے مزید جامع اور بامقصد بنا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت دونوں ممالک کے عوام کو روزگار کی فراہمی کے علاوہ دونوں خطوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لا کر ان کے اندر مہارتوں میں اضافہ کرنا اور انسانی سرمایہ کے اعشاریوں کو بہتر بنانے کا ہدف شامل ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سی پیک پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد گار ضرور ہے لیکن یہ ہماری معاشی منصوبہ بندی کا متبادل نہیں ہے۔

امریکہ اور بھارت کی طرف سے سی پیک کی مخالفت کے حوالے سے پوچھے گے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ امریکہ کے تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھارت اس منصوبے کی مخالفت صرف اس لئے کر رہا ہے کہ اس سے پاکستان کو اقتصادی فائدہ پہنچے گا۔

اس کے علاوہ بھارت کا یہ بھی اعتراض ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کے کچھ حصوں پر گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں عملدرآمد کیا جائے گا جو متنازعہ علاقے ہیں لیکن ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ نہ صرف گلگت بلتستان اور آزادکشمیر متنازعہ علاقے ہیں بلکہ پوری ریاست جموں وکشمیر متنازعہ ہے جس کے ایک بڑے حصے پر بھارت نے قبضہ جما رکھا ہے اور اس ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

Related Posts