عمران خان کا پر اسرار رویہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

انسانوں کے معاشرے میں حکم ہے ناانصافی کا مقابلہ کرو،عمران خان
انسانوں کے معاشرے میں حکم ہے ناانصافی کا مقابلہ کرو،عمران خان

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پی ٹی آئی کے پارٹ ٹائم لانگ مارچ کے دوران 3 نومبر کو وزیر آباد میں عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے۔ ضرورت تو نہیں مگر پھر بھی صراحت کردیں کہ ہم نے پارٹ ٹائم کا لفظ طنزیہ نہیں بلکہ اظہار حقیقت کے طور پر ہی برتا ہے۔

جو لانگ مارچ چھ سات روز سےدن کے ایک محدود حصے میں شروع ہوکر ختم ہوتا رہا ہو اسے کوئی کل وقتی قسم کا سنجیدہ لانگ مارچ سمجھنے کے لئے عقل کی مقدار بھی پھر اتنی ہی ہونی چاہئے جتنا اس لانگ مارچ کا سائز تھا۔ یہ بات کسی بھی شک و شبہے سے خالی ہے کہ مارچ کے شرکاء کی بہت کم تعداد کا ہی نتیجہ تھا کہ ہر رات عمران خان شب بسری کے لئے زمان پارک لاہور پہنچ جاتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ مارچ جس شہر یا قصبے سے گزرتا وہیں کے لوگ “کنٹینر شریف” کی زیارت کو نکل آتے اور جب کنٹینر آبادی سے نکلتا تو تنہائی کا احساس اسے سردیوں کے چاند کی طرح شدت سے گھیر لیتا۔

اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ گوجرانوالہ وغیرہ میں ہوٹلوں کی بکنگ رپورٹ نہیں ہوئی۔ نہ ہی میڈیا پر کوئی ایسی خیمہ بستی دکھائی گئی جہاں لانگ مارچ کے شرکاء نے رات گزارنے کے لئے پڑاؤ ڈالا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تو ہوا ہی نہیں کہ رات گیارہ بجے کے بعد کسی نے لانگ مارچ نامی جنس کسی شاہراہ پر دیکھی ہو۔ یہ پی ٹی آئی کے نقطہ نظر سے ایک بہت جذبہ شکن صورتحال تھی۔ یوں یہ خطرہ بھی سر پر منڈلانے لگا کہ اگر خیبر پختون خوا سے آنے والوں کی تعداد بھی اتنی ہی رہی تو اسلام آباد میں داخلے کا منظر تو کسی کامیڈی ڈرامے کے سین سے کم نہ ہوگا۔ شاید کیا یقیناً یہی وجہ تھی کہ وفاقی حکومت ہی پر اعتماد نہ تھی بلکہ لندن سے مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف نے یہ ٹویٹ بھی کردی کہ انہوں نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ پی ٹی آئی کو کوئی فیس سیونگ نہ دی جائے۔ سو یہ ہے وہ سارا پس منظر جس میں وزیرآباد فائرنگ والا واقعہ پیش آیا۔

ہم یہ بات تو کسی صورت نہیں کہہ سکتے کہ اس واقعے میں خود پی ٹی آئی کا ہی ہاتھ ہوسکتا ہے۔ صحافت میں گزرے ہمارے بتیس برس ہمیں اتنا تو سکھا ہی چکے ہیں کہ ایسی بات کے لئے ٹھوس ثبوت ہونا لازم ہیں۔ جو ظاہر ہے کہ نہ تو ہمارے پاس ہیں اور نہ ہی میڈیا کے کسی اور حصے میں ایسی کوئی چیز رپورٹ ہوئی ہے۔ لیکن ہمارے کچھ سوالات ہیں جو بہت اہم ہیں۔ اس واقعے کے حوالے سے جو پہلا سوال ہمیں سوچ میں ڈالتا ہے، وہ یہ ہے کہ کنٹینر سے بقدم خود اترتے وقت خان صاحب مسکرا کیوں رہے تھے؟ ہم یہ ہر گز نہیں کہتے کہ انہیں رونا دھونا چاہئے تھا یا واویلا مچانا چاہئے تھا مگر ایک ٹریجیڈی کے موقع پر پریشانی، حیرت اور سکتے کے بجائے مسکراہٹ؟ یہ ناقابل فہم ہے۔

دوسرا سوال یہ کہ خان صاحب چونکہ زخمی تھے، لہٰذا جس ضلع میں یہ واقعہ پیش آیا تھا اس ضلع کے سرکاری ہسپتال جانا لازمی طبی و قانونی تقاضا تھا۔ طبی یوں کہ خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ انہیں چار گولیاں لگی ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ شدید زخمی تھے، ان کا بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا، سو انہیں فوری طبی امداد اور خون کی اشد ضرورت تھی۔ چنانچہ یہ فطری تقاضا تھا کہ جتنا جلد ممکن ہو انہیں ہسپتال پہنچایا جائے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی ایمرجنسی میں قریب ترین ہسپتال ہی اوّلین ترجیح ہوسکتا تھا۔ یہ قانونی طور پر یوں ضروری تھا کہ ان کی میڈیکولیگل رپورٹ بننی تھی۔ وہ رپورٹ جس کی بنیاد پر کیس نے عدالت میں آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ یہ رپورٹ اسی ضلع کے سرکاری ہسپتال کی قابل قبول ہوتی ہے جہاں واقعہ ہوا ہو۔

یہ رپورٹ یوں بنتی ہے کہ میڈیکولیگل آفیسر متاثرہ شخص کے ہسپتال پہنچتے ہی یہ دیکھتا ہے کہ وہ کس حالت میں ہسپتال لایا گیا؟ وہ ہوش میں تھا یا بیہوش تھا؟ زخموں اور بہتے خون کی صورتحال کیا تھی؟ متاثرہ شخص کو دیکھتے ہی ڈاکٹر کس نتیجے پر پہنچے اور انہوں نے فوری طور پر کیا کیا اقدامات تجویز کئے اور ان پر عمل کیا۔ کتنے ایکسرے، اور کون کونسے ٹیسٹ ہوئے اور ان کی رپورٹس کیا تھیں؟ جسم پر گولیوں کے زخم کتنے پائے گئے؟ ان زخموں میں سے کتنے ایسے تھے جن سے گولی پار ہوچکی تھی اور کتنی گولیاں متاثرہ شخص کے جسم میں ہی موجود تھیں جو آپریشن کے ذریعے نکالی گئیں؟ آپریشن کامیاب رہا یا ناکام؟ ڈاکٹروں نے آپریشن کے بعد متاثرہ شخص کی حالت خطرے سے باہر بتائی یا ان کا کہنا تھا کہ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے؟ یہ اور اس طرح کے لاتعداد سوالات کا میڈیکولیگل رپورٹ احاطہ کرتی ہے اور اس کے ساتھ ایکسرے، ٹیسٹ رپورٹس، ڈاکٹرز کے قلم سے نکلے ہر حرف سمیت جملہ دستاویزات اس رپورٹ کا حصہ ہوتی ہیں اور یہ وہ سرکاری قانونی رپورٹ ہوتی ہے جو عدالت میں کیس کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ عمران خان کو وزیرآباد کے کسی ہسپتال نہیں لے جایا گیا، انہیں ان کی بلٹ پروف گاڑی میں تین گھنٹے کا طویل سفر کرکے لاہور میں واقع ان کے “ذاتی” ہسپتال لے جایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر انہیں ان کے بقول چار گولیاں لگی تھیں تو ظاہر ہے بہت خون بھی بہہ رہا ہوگا۔ اس کے باوجود قریب ترین کے بجائے تین گھنٹے کی مسافت پر واقع شوکت خانم ہسپتال لے جانے کا رسک کیوں لیا گیا؟ یہ تو ہوا طبی نقطہ نگاہ سے سوال۔ قانونی نقطہ نظر سے یہ سوال ہے جو بے حد اہم ہے کہ میڈیکولیگل رپورٹ کے لازمی تقاضے کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟ کیا شوکت خانم کی رپورٹ کی اس کیس میں کوئی اہمیت ہوگی؟ قطعاً نہیں۔ قانون یہ کہتا ہے میڈیکولیگل رپورٹ سرکاری ہسپتال ہی جاری کرسکتا ہے۔ اور یہ ہسپتال اسی ضلع کا ہونا چاہئے جہاں واقعہ رونما ہوا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بہت اعلیٰ پرائیویٹ ہسپتال تھے لیکن جب محترمہ بینظیر بھٹو پر لیاقت باغ سے متصل حملہ ہوا تو انہیں فوراً راولپنڈی جنرل ہسپتال اسی لئے پہنچایا گیا تھا کہ یہ قانونی تقاضا تھا۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے اپنی طرف سے صورتحال کو کور کرنے کے لئے لاہور کے جناح ہسپتال سے رپورٹ بنوالی ہے مگر ذرا دیکھتے جایئے کہ جب یہ کیس عدالت جاتا ہے تو وہاں اس رپورٹ کا بھرکس کیسے نکلتا ہے۔ کسی دوسرے ضلع کے سرکاری ہسپتال کی رپورٹ صرف اسی صورت میں قابل قبول ہوتی ہے جب متاثرہ شخص کو جائے وقوعہ والے سرکاری ہسپتال نے ناکافی سہولیات کی وجہ سے دوسرے ضلع کے ہسپتال ریفر کیا ہو۔ خان صاحب کو وزیر آباد کے ہسپتال نے ریفر نہیں کیا۔ وہ اگر کرتا بھی تو قریب ترین ضلع کے ہسپتال ریفر کرتا جو ممکنہ طور پر گجرات یا گوجرانوالہ کا ہسپتال ہوسکتا تھا۔

تیسرا سوال یہ کہ خان صاحب کو جب شوکت خانم ہسپتال پہنچایا گیا تو ان کے ایک پیر پر تو کوئی پٹی یا کپڑا وغیرہ بندھا تھا مگر دوسرا پیر بالکل صحیح سلامت تھا۔ مگر اگلے روز جب وہ پریس کانفرنس کے لئے نمودار ہوئے تو دونوں پیروں پر پلاسٹر تھا۔ یہ دوسرا پیر آپریش تھیٹر میں کس نے زخمی کیا ؟ اور زخمی پیر پر پلاسٹر کیسے چڑھا دیا گیا ؟ ہڈی ٹوٹنے کے کیس میں بھی اگر متاثرہ مقام پر زخم ہو تو پلاسٹر کسی صورت نہیں کیا جاتا کیونکہ اس سے زخم میں خطرناک قسم کا انفیکشن ہوجاتا ہے۔ جبکہ خان صاحب کے تو پیروں کی ہڈیاں سلامت ہونے کا اس بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ وہ سہارے سے سہی مگر پیروں پر چل کر کنٹینر سے اترے اور بلٹ پروف گاڑی میں سوار ہوئے تھے۔ تو یہ پلاسٹر کیوں ؟ اور سب سے اہم یہ کہ خان صاحب کہتے ہیں کہ انہیں چار گولیاں لگی ہیں جبکہ انہی کے ہسپتال کے ڈاکٹر فیصل سلطان کہہ رہے ہیں گولیاں نہیں ان کے ذرات لگے ہیں۔ خان صاحب اپنے ڈاکٹر کے برخلاف موقف کیوں اختیار کر رہے ہیں ؟

تھوڑا ہٹ کر ہی سہی مگر یہ ذکر بے جا نہ ہوگا کہ یہ شوکت خانم ہسپتال کے وہی ڈاکٹر فیصل سلطان ہیں جنہوں نے رپورٹ دی تھی کہ نواز شریف کی حالت خطرے میں ہے، ان کا علاج کے لئے فوری بیرون ملک جانا ضروری ہے۔ اور انہی ڈاکٹر صاحب کی رپورٹ پر عمران خان نے نواز شریف کو پہلے ملک سے باہر جانے دیا۔ اور پھر کچھ دن بعد یہ موقف اختیار کرلیا کہ نواز شریف کے معاملے میں “مجھے دھوکہ دیا گیا” سوال یہ ہے کہ دھوکہ دینے والا یہ ڈاکٹر فیصل سلطان اب بھی شوکت خانم میں ہسپتال میں کیوں حاضر سروس ہے ؟

آخری اور سب سے اہم سوال یہ کہ ایف آئی آر کا فوری کٹنا لازمی قانونی تقاضا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے چکر میں عمران خان اسے مسلسل تاخیر سے دوچار کر رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ایف آئی آر میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیصل نصیر کو نامزد کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس اس حوالے سے کوئی ثبوت تو ہیں نہیں۔ اگر ہوتے تو دکھا نہ چکے ہوتے ؟ نتیجہ یہ کہ ایف آئی آر جس درست قانونی شکل میں کٹنی چاہئے اس شکل میں کٹ ہی نہیں پا رہی۔ اور یہ چیز بھی باقی معاملات کی طرح کیس کو ڈیمج کرے گی۔ سو اس پوری صورتحال میں اگر آپ غور کریں تو پہلے ہی لمحے سے پی ٹی آئی کے تمام کے تمام اقدامات وہ ہیں جو کیس کا قانونی حلیہ بگاڑنے والے ہیں۔ کنٹینر سے اترتے ہی ہر قدم ایسا اٹھایا گیا ہے جس سے کیس بری طرح خراب ہو۔ سو کلیدی سوال یہ ہے کہ عمران خان خود ہی اپنا کیس جان بوجھ کر خراب کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں ؟ کیا کچھ ہے جو چھپانے کی کوشش میں یہ سب ہو رہا ہے ؟

Related Posts