شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ کیس کی تحقیقات، کیا لوٹا گیا پیسہ واپس مل جائے گا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ کیس کی تحقیقات، کیا لوٹا گیا پیسہ واپس مل جائے گا؟
شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ کیس کی تحقیقات، کیا لوٹا گیا پیسہ واپس مل جائے گا؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وزیرِ اعظم عمران خان نے تحقیقاتی اداروں کو شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ سے متعلق کیسز کی تحقیقات کا حکم دیا ہے جبکہ آج وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک ساتھ سب سے زیادہ 14 ٹوئٹر پیغامات ارسال کیے۔

سوال یہ ہے کہ شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ کیس کی تحقیقات میں کون سی نئی پیشرفت ہوئی ہے؟ کیا تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت قوم کو اس کی لوٹی ہوئی دولت واپس دلانے میں کامیاب ہوجائے گی؟ آئیے ان تمام سوالات پر غور کرتے ہیں۔

حدیبیہ کیس کیا ہے؟ فواد چوہدری کے 14 پیغامات

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یکے بعد دیگرے اپنے 14 پیغامات میں وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے حدیبیہ کیس کے متعلق مختلف انکشافات کیے جو شریف خاندان کی منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس سے متعلق کیس میں اہم پیشرفت قرار دی جاسکتی ہے۔

پہلے پیغام میں وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ حدیبیہ پیپرملز کیس تقریباً 1242 ملین (1 ارب 24 کروڑ 20لاکھ) روپے کے فراڈ کی کہانی ہے جو بلحاظ حجم پانامہ پیپرز کیس سے بڑی ہے اور جس کی ابتداء سن 2000 میں اس وقت ہوئی جب نیب حکام نے حدیبیہ پیپرز کیخلاف ایک ریفرنس دائر کیا۔

دوسرے پیغام میں فواد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف کے دونوں بیٹے حسن اور حسین نواز، شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز بھی اس کے مرکزی کردارہیں۔ اسحاق ڈار نے اس فراڈ میں شریف خاندان کی معاونت کیلئے بیرونی کرنسی کے جعلی بے نامی اکاؤنٹس کھلوائے۔

تیسرے پیغام میں وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ پکڑے جانے پر اسحاق ڈار وعدہ معاف گواہ بنے اور انہوں نے متعلقہ حکام کو اپنا تفصیلی بیان بھی ریکارڈ کروایا مگر بعد میں یہ کہہ کر کہ ان سے یہ بیان زبردستی لیا گیا، اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ اس فراڈ کیلئے بہت ہی زبردست طریقہ اختیار کیا گیا۔

چوتھے پیغام میں وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز پرائیویٹ لمیٹیڈ کے ریکارڈ کی پڑتال کے دوران نیب اسلام آباد کے تفتیشی افسران پر یہ انکشاف ہوا کہ 97-1996 اور 98-1997 کے دوران کمپنی کے کھاتوں میں بالترتیب 30.499 ملین اور 612.273 ملین روپے بطور شیئر ڈیپازٹ ظاہر کئے گئے ہیں۔

پانچویں پیغام میں وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ وہ کمپنی جس کا اس سرمایہ کاری سے قبل حجم محض 95.7 ملین اور مجموعی خسارہ 809.834 ملین روپے تھا،اس میں اتنی بھاری رقوم کی آمد نے تحقیق کاروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا چنانچہ نیب نے 1999 کے نیب آرڈیننس کے تحت معاملے کی پڑتال کے احکامات صادر کردیے۔

چھٹے پیغام میں فواد چوہدری نے کہا کہ ملز انتظامیہ جو میاں محمد شریف (سابق وزیرِ اعظم کے والد)، شمیم اختر (نواز شریف کی والدہ)، نواز شریف (سابق وزیرِ اعظم)، ن لیگ کے صدر شہباز شریف، عباس شریف، نواز شریف کی صاحبزادی مریم صفدر، صبیحہ عباس، حسین نواز اور حمزہ شہباز پر مشتمل ہے، تحقیقات سے پتہ چلا کہ ان کی تجوریوں میں بھاری بھرکم غیرقانونی سرمایہ موجود ہے اور وہ اس دولت کے ذرائع بتانے سے قاصر ہیں۔

ساتویں پیغام میں فواد چوہدری نے انکشاف کیا کہ شریف خاندان نے منی لانڈرنگ کیلئے 1992 کے دی پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ کی مختلف شقوں کا سہارا لے کر دھوکے سے بیرونی کرنسی کے مختلف جعلی کھاتے کھولے اور بہت سی دولت ان کھاتوں میں جمع کروائی۔

آٹھویں پیغام میں فواد چوہدری نے کہا کہ جب یہ جعلی اکاؤنٹس کا بھانڈا پھوٹ گیا تو انہوں نے یہ پیسہ حدیبیہ پیپر ملز کے اکاؤنٹس میں اس طرح براہِ راست ڈالنے کا فیصلہ کیا،اس مقصد کیلئے انہوں نے اس مل کے اکاؤنٹس کیلئے اس بیرونی کرنسی کی مالیت کے برابر مختلف ڈالر ٹیلی گرافک ٹرانسفرز (ٹی ٹیز) کا بندوبست کیا۔

نویں پیغام میں وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ بالکل اسی طرح جیسے ابھی شہباز شریف اور مریم نواز کی رقوم پاکستان سے باہر بھیجی گئیں، 1242.732 ملین روپے اچانک شریف فیملی کے اثاثوں میں آگئے یہ رقم پانامہ اسکینڈل سے بھی بڑی تھی۔

دسویں پیغام میں فواد چوہدری نے کہا کہ نیب نے یہ بھی نشاندہی کی کہ مذکورہ واردات کے ذریعے شریف خاندان کے ان نامزد افراد نے منی لانڈرنگ اور اثاثے چھپانے جیسے گناہ ہی نہیں کئے بلکہ یہ بہت سے ریاستی و حکومتی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بھی مرتکب ہوئے ہیں۔

گیارہویں پیغام میں وزیرِ اطلاعات و نشریات نے کہا کہ مشرف دور میں جب یہ معاملہ احتساب عدالت کے روبرو آیا تو کیس کے دوران ہی شریف فیملی نے مشرف حکومت کے ساتھ ڈیل کی اور سعودی عرب چلے گئے۔ ستمبر 2008 میں معاملہ دوبارہ اٹھایا گیا لیکن پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مک مکا نےکیس پھر رکوا دیا۔کہا گیا کیس نہیں چل سکتا کیونکہ چیئرمین نیب کے دستخط نہیں ہیں۔

بارہویں پیغام میں فواد چوہدری نے کہا کہ شریف خاندان نے کارروائی کو لاہور ہائیکورٹ کے روبرو چیلینج کیا تو 2 رکنی ڈویژن بنچ نے 1،1 سے منقسم فیصلہ سنایا یوں معاملہ ریفری جج کے پاس چلا گیا جس نے مقدمے کی بندش کا فیصلہ کرنے والے ڈویژن بنچ کے جج کی رائے کی حمایت کا فیصلہ دیا، اور مقدمہ 2014 میں بند کردیا گیا۔

تیرہویں پیغام میں وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ دلچسپ بات یہ تھی کہ اتنی تفصیلی تفتیش کے بعد اس کیس کا ایک دن بھی عدالتی ٹرائل نہیں ہوا، جس جج نے کیس بند کرنے کا فیصلہ دیا پانامہ اسکینڈل میں انکشاف ہوا کہ ان جج صاحب کے اپنے اثاثے بھی بیرون ملک تھے، بدقسمتی سے ان جج صاحب کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔

چودہویں پیغام میں فواد چوہدری نے کہا کہ اس مقدمے میں اب کچھ نئے حقائق بھی سامنے آئے ہیں جن پر نئی تفتیش کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ امید ہے عدلیہ ان ججوں پر بھی کارروائی  کرے گی جنہوں نے شریف فیملی کی معاونت کی، انصاف کا تقاضا ہے کہ تمام ادارے اپنا کردار ادا کریں، پاکستان کا مستقبل قانون کی حکمرانی سے وابستہ ہے۔

شہباز شریف کی بیرونِ ملک روانگی ملتوی

حال ہی میں ن لیگ کے صدر شہباز شریف کو بیرونِ ملک روانہ ہونےسے روک دیا گیا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام نے شہباز شریف کو لندن روانہ نہیں ہونے دیا۔ بعد ازاں شہباز شریف نے یہ فیصلہ کیا کہ عید الفطر پاکستان میں گزاری جائے۔ 

منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کا تعلق؟

پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کے سیاستدان یا کسی اور شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد جب غیر قانونی طور پر اپنا پیسہ ملک سے باہر بھیجتے ہیں تو اس کیلئے جعلی اکاؤنٹس استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ پردہ نشینوں کے نام سامنے نہ آسکیں۔

دوسری جانب منی لانڈرنگ سے مراد یہ ہے کہ ملک کا پیسہ جو لوٹ لیا جاتا ہے وہ ملک سے باہر بھیج دیا جائے اور سوئٹزرلینڈ سمیت دیگر ممالک کے اکاؤنٹس میں محفوظ کر لیا جائے۔ اس کیلئے غیر قانونی منی لانڈرنگ چین سے خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب شہباز شریف اور سابق صدر آصف زرداری پر ہاتھ ڈالا گیا تو جہانگیر ترین کی منی لانڈرنگ بھی کھل کر سامنے آگئی کیونکہ پیسہ باہر بھیجنے کیلئے ایک ہی طریقۂ کار استعمال کیا جارہا تھا۔

کیا لوٹی گئی دولت وطن واپس آئے گی؟

عمران خان کا کہنا ہے کہ جس نے جتنا پیسہ لوٹا ہے، اس سے پورا حساب کتاب کرکے تمام پیسہ واپس لیا جائے گا لیکن یہ سب معاملات اتنے آسان نہیں ہیں جتنا وفاقی حکومت انہیں سمجھ رہی ہے۔ شریف خاندان کیس میں ایک جج کے ملوث ہونے کے فواد چوہدری کے کیے گئے انکشاف سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے۔

مختصر یہ کہ اگر آپ سیاستدانوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو بدعنوان عدلیہ اور اگر عدلیہ کا احتساب کرتے ہیں تو ایک ایسے شعبے کے بدعنوان افسران سامنے آجاتے ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ پھر بھی ملک کا لوٹا گیا پیسہ وطن واپس آئے گا، پاکستانی قوم اس کی آس لگائے بیٹھی ہے۔ 

Related Posts