علاقائی منظر نامہ ۔۔۔مخدوش معیشت کوسہارا؟؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

چینی صدر کا گزشتہ ہفتے سعودی عرب کا دورہ بین الاقوامی سیاست میں ایک نمایاں پیش رفت ہے جونہ صرف سعودی عرب بلکہ خلیجی اور دیگر عرب ممالک کا چین کی طرف جھکاؤ صاف ظاہر کرتا ہے۔ اس چیز کا مدلل طریقے سے یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب اور چین کےدرمیان 35 ایم او یو ومعاہدے ہوچکے ہیں ۔

سرفہرست دور رس اور دیرپا معاہدہ جس میں خودمختاری اور علاقائی سالمیت بشمول سعودی عرب کا دفاع شامل ہے، یہ معاہدہ بین الاقوامی بدلتے منظر نامے کی عکاسی کرتا ہے۔ دنیا کوبخوبی علم ہے کہ امریکا کی خارجہ پالیسی میں چین کے قدم روکنے کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

دنیا کو یہ بھی علم ہے کہ اب تک امریکا سعودی عرب کے دفاع کا ضامن رہا ہے تاہم اس معاہدے کے بعد چین نہ صرف سعودی عرب بلکہ تمام عرب ممالک میں ایک کلیدی حیثیت اختیار کر جائے گا۔

یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت پہلے ہی دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک میں اپنے معاشی پنجے گاڑ چکا ہے اور اب سعودی عرب نے بھی یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ بھی ویژن 2030کے تحت اپنے منصوبوں کو چینی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹومیں ڈھالے گا جس کا مطلب یہ ہوا کہ سعودی عرب بمع دیگر عرب ممالک آہستہ آہستہ یورپ کی بجائے مشرقی ایشیا کی طرف اپنے معاشی، سیاسی اور دفاعی معاملات کو پروان چڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ پاکستان کی بہت بدقسمتی ہوگی کہ اگر بدلتے منظر نامے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے چین اور خلیجی ممالک کی مدد سے اپنی معیشت کی ڈوبتی نیا کو سنبھالا نہ دے سکے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ چین کی پاکستان میں اسٹریٹجک دلچسپی ہے کیونکہ چین  کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹواسی وقت ثمرات دے سکتا ہے جب سی پیک پاکستان کی سرزمین پر مکمل ہو۔

اس میں چین کا سب سے بڑا مفاد سمندری راستوں سے غیر حفاظتی ترسیلات بشمول تیل کی ترسیلات سے بچنا ہے۔ یہ غیر محفوظ سمندری راستے امریکا، آسٹریلیا، برطانیہ اور دیگر ممالک کے عسکری معاہدوں کے سبب مزید خطرات کے حامل ہوچکے ہیں۔

امریکا جب چاہے سمندری راستوں سے ترسیلات ختم کرکے چینی معیشت کا گلا گھونٹ سکتا ہے۔ مذکورہ حالات کے سبب چین کواگر درست طریقے سے قائل کیا جائےتو اس کیلئے 20، 25 ارب ڈالر کوئی حیثیت نہیں رکھتے لیکن پاکستان کیلئے یہ معاشی بقاء کا سوال ہے۔

جب تک چین یا خلیجی ممالک سے امداد پہنچتی ہے اس وقت تک پاکستان کی آخری سانسیں لیتی معیشت کو ڈوبنے سے بچانا ہوگا لیکن مقام افسوس کہ ہمارے بیشتر حکمرانوں اور سیاستدانوں کو  شاید حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں ہے، اگر اب بھی میثاق معیشت پر بات نہ کریں تو ہم اپنی سانس کی ڈور کٹواسکتے ہیں۔

ابتر حالات کا ثبوت یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان خود کہہ رہا ہے کہ اس وقت پاکستان کے بینکوں کے پاس صرف 5 اعشاریہ 87 ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر باقی ہیں اور مرکزی بینک کے پاس صرف 6 اعشاریہ 7  ارب ڈالر کے ذخائر ہیں۔

6 اعشاریہ 7  ارب ڈالر کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس صرف ایک مہینے کی درآمدات کی سکت ہے،  اس کے بعد کیا ہوگا اس کا کچھ معلوم نہیں۔ حکومت پاکستان نے کئی معاملات میں ڈالرز کی  لین دین روک دی ہے جس کی وجہ سے پاکستانیوں کیلئے بیرون ملک سفر کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

ترک ایئر لائن کے علاوہ کئی ممالک کی ہوائی کمپنیوں نے پاکستانیوں کو سفری سہولت دینے پر نظر ثانی شروع کردی ہے، ان حالات کی وجہ سے بتدریج لوگ بیرون ممالک کے سفر سے محروم ہوتے جائیں گے۔

اسی طرح اگر ہم نے اب بھی میثاقِ معیشت کی طرف قدم نہ بڑھایا تو معیشت کی سانسیں اکھڑ جائیں گی۔ آنے والے دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات مارکیٹ سے کمیاب ہونے لگیں گی، مارکیٹ میں تیل کی قلت پیدا ہوجائیگی اور بجلی کے بحران کے ساتھ ساتھ کئی مشکلات سامنے آنا شروع ہوجائیں گی۔

سیاستدانوں نے سیاست سیاست بہت کھیل لیا ہے لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کرسی کا کھیل کھیلنے والوں کی حالات سے بخوبی واقفیت کے باوجود کوئی امید بر نہیں آتی۔

سیاستدانوں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو حالات مزید مخدوش ہوجائینگے۔ جن کے اثاثے بیرون ممالک میں ہیں ان کو تو زیادہ پریشانی نہیں ہوگی لیکن 98 فیصد عوام کیلئے مشکلات کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہوجائے گا۔

Related Posts